سچ خبریں:حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے سید حسن نصراللہ نے اس تنطیم کے کمانڈر مصطفی بدر الدین کی شہادت کی 7ویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں غزہ جنگ، شام اور لبنان میں کی صورتحال سمیت مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
المنار چینل کی رپورٹ کے مطابق لبنان کی حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے اس تنظیم کے ایک کمانڈر مصطفی بدرالدین کی شہادت کی ساتویں برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں فلسطینی جہاد اسلامی کے کمانڈر خضر عدنان کی شہادت پر تعزیت کا اظہار کیا۔
انہوں نے شہید مصطفی بدر الدین (سید ذوالفقار) کا ذکر کیا اور اس شہید کی فہم، بصیرت، اور حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے بہت سے کمانڈروں میں یہ خصوصیات موجود ہیں،نصراللہ نے کہا کہ شہید ذوالفقار صف اول میں لڑے، فوج میں خدمات انجام دیں، قید ہوئے، کمانڈر بنے اور بہت ساری دیگر کامیابیاں حاصل کیں اور آخر میں جام شہادت نوش فرمایا۔
حزب اللہ کے جنرل سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ لبنان ہمیشہ علاقے کی صورتحال سے متاثر ہوتا ہے ،تاہم انسان کو حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے اور اس سے بھاگنا نہیں چاہیے،انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اسرائیل لبنان میں ہی رہے گا، انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ غلط تھے اور ان کے تمام حساب کتاب غلط نکلے ۔
نصر اللہ نے مزید کہا کہ نیتن یاہو نے غزہ میں موجودہ جنگ کا آغاز سرایا القدس کے مجاہدین ، فلسطینی خواتین اور بچوں کو قتل کرکے کیا، تاہم بدقسمتی سے اس کے جواب میں عالمی برادری کی خاموشی دیکھنے کو ملی جبکہ امریکہ سلامتی کونسل کو غزہ میں خواتین اور بچوں کو شہید کرنے پر اسرائیل کی مذمت سے روک رہا ہے۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے مزید کہا کہ نتن یاہو اس جنگ سے اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں جن میں ڈیٹرنس کو بحال کرنا اور اندرونی بحران سے نکلنا، حکومتی اتحاد کو ٹوٹنے سے بچانا اور اپنی سیاسی اور انتخابی پوزیشن کو بہتر بنانا ہے۔
نصراللہ نے کہا کہ صرف جہاد اسلامی کے خلاف کاروائی کر کے اور دوسرے گروہوں کو نشانہ نہ بنا کر مزاحمتی تحریک میں تفرقہ ڈالنے پر مبنی نیتن یاہو کا منصوبہ ناکام رہا جس کے ساتھ ساتھ وہ قدس بٹالین کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے اور اس کے کمانڈروں کو نشانہ بنا کر میزائل کی طاقت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاد اسلامی تحریک نے اپنے کمانڈروں کے قتل کے معاملے میں سمجھداری سے کام لیا اور قسام بٹالین کے کمانڈروں سے متفقہ موقف اختیار کرنے کے لیے مشورہ کیا، دشمن جہاد اسلامی کی تحریک کے ردعمل کا انتظار کر رہا تھا لیکن جب اس نے پرامن مقابلہ دیکھا تو پریشان ہو گیا۔