سچ خبریں: غزہ جنگ کے شروع سے اب تک کے عمل پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس مجرمانہ جنگ کا سب سے بڑا شکار بچے ہیں اور اسی وجہ سے کئی عالمی ادارے اسے بچوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ قرار دیتے ہیں۔
فلسطین الیوم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جب کہ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی وحشیانہ جنگ کا سب سے زیادہ نشانہ اس خطے کے فلسطینی بچے ہیں، فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات نے عالمی یوم قدس کے موقع پر اعلان کیا ہے کہ قابض فوج غزہ میں ہر ایک گھنٹے میں 4 بچوں کو شہید کرتی ہے، اس جنگ کے 181 دنوں کے بعد 43 ہزار 349 بچے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے بغیر رہ چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ فسطینی بچوں کو مارنے کے لیے اب صیہونی حکومت کو کیا دے رہا ہے؟
ان اعدادوشمار کے مطابق غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی مجرمانہ جنگ میں 14350 سے زیادہ شہداء بچے ہیں اور اس جنگ کے 44% متاثرین بچے ہیں نیز 70% سے زیادہ متاثرین خواتین اور بچے ہیں۔
ان اعدادوشمار کے مطابق 7 اکتوبر 2023 کو جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا ہے، غزہ میں بچوں کے مسلسل قتل عام کے علاوہ مغربی کنارے میں 117 بچے شہید اور اس علاقے میں 724 بچے زخمی ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں سے بے گھر ہونے والے 1620 افراد میں سے 710 بچے ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں قابضین نے مغربی کنارے سے 1085 اور مقبوضہ بیت المقدس سے 318 بچوں کو حراست میں لیا، اس کے علاوہ 204 بچے جن میں 202 مغربی کنارے سے، ایک غزہ کی پٹی سے اور ایک 1948 کے مقبوضہ علاقوں سے ہے، اب بھی قابض حکومت کی جیلوں میں ہیں۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 15 فروری سے 15 مارچ تک غزہ کے 95 فیصد باشندے، جو تقریباً 2.13 ملین افراد ہیں، شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، یہ حالت بچوں میں بہت زیادہ خراب ہے اور غزہ میں 5 سال سے کم عمر کے زیادہ تر بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، غزہ کے اسپتالوں میں غذائی قلت کے باعث اب تک کم از کم 28 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے بعد سے غزہ میں تقریباً 20 ہزار بچے پیدا ہو چکے ہیں اور غزہ میں 60 ہزار حاملہ خواتین ہیں نیز اوسطاً روزانہ 180 بچے پیدا ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں: غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم پر ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ
غذائی قلت، متعدی امراض کے علاوہ، جن میں سب سے عام اسہال، جلد اور ہاضمے کی دائمی بیماریاں ہیں، جن کا غزہ کے بچے صہیونی دشمن کی جارحیت کی وجہ سے سامنا کر رہے ہیں، یہ بچے نفسیاتی طور پر بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، ان میں سے اکثر نے اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا ہے اور ان کے پاس پناہ لینے کے لیے کوئی جگہ بھی نہیں ہے جبکہ وہ غاصب حکومت کی مسلسل بمباری سے خوفزدہ ہیں۔