سچ خبریں:عراقی حکومت نے گذشتہ سال دسمبر کے آخر میں وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کی زیر صدارت اجلاس جس میں ہائی انتخابی کمیشن کے ممبران نے شرکت کی، میں پارلیمانی انتخابات کا وقت 10 اکتوبر 2021مقرر کیا کہ گذشتہ دو سالوں میں اس ملک کو در پیش مسائل کے پیش نظر ان انتخابات کواپنے وقت سے پہلے کیا جارہا ہے۔
آئی آر این اے کی رپورٹ کے مطابق عراق کے مختلف شیعہ ، کرد اور سنی سیاسی گروہ اس ملک کے سیاسی منظر نامے کے سب سے اہم اور بڑے اداکاروں کی حیثیت سے ، 10 اکتوبر اور اس سے پہلے اپنی نشستوں کے لئے مشورے کر رہے ہیں جو اس وقت بھی جاری ہیں ،یادرہے کہ عراق میں اکتوبر 2019 میں شروع ہونے والے وسیع پیمانے پر عوامی مظاہروں کے دباؤ میں اور اس ملک کی حکومت نے سابق وزیر اعظم عادل عبد المہدی کے استعفیٰ کی وجہ سے وقت سے پہلے ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے 10 اکتوبر 2021 کی تاریخ کا اعلان کیا۔
واضح رہے کہ جیسے جیسے عراقی انتخابات قریب آرہے ہیں اس ملک کے سیاسی اتحادوں اور گروپوں کا نقشہ جو پہلے ہی اپنا اتحاد شروع کر چکے ہیں یا انتخابات کے بعد اتحاد کا اعلان کرنے کی کوشش میں ہیں ، آہستہ آہستہ واضح ہوتا جارہا ہے،اس عرصے کے دوران سیاسی دھڑوں کے اتحاد اور پارٹی گروپوں کی ویٹ لفٹنگ کے بارے میں مختلف اور متضاد خبریں شائع ہورہی ہیں، جن میں صدر دھڑے کا مسعود بارزانی کی پارٹی کے ساتھ اتحاد کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد دوسرے گروہ بیکار نہیں بیٹھے اور کئی نئے نئے اتحاد پیدا ہوئے۔
تاہم ان تمام چالوں کے باوجود یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ آنے والےپارلیمانی انتخابات حیرت کا باعث ہوں گے اور نامعلوم گروہ یا ابھرتی ہوئی پارٹیاں عراقی سیاسی منظر کو تبدیل کرنے اورسیاست کے صفحے کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوں گی ، اس بات کا بہت امکان ہے کہ پارلیمانی نشستیں اب بھی اتار چڑھاؤ کا شکار ہوں گی نیز موجودہ سیاسی گروہوں اور دھڑوں کو تقسیم کیا جائے گا۔
عراقی سیاسی تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ 10 اکتوبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج 2018 کے انتخابات کے نتائج سے زیادہ مختلف نہیں ہوں گے ،بعید ہے کہ کوئی حیرت انگیز کام ہو،کارنیگی اینڈوومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں عراقی امور کے ماہر حارث حسن نے الحرہ چینل کو بتایا کہ آئندہ انتخابات نہ تو پچھلے انتخابات کی مکمل تکرار ہیں اور نہ ہی عراقی سیاسی منظر میں بنیادی تبدیلی آنے کی امید ہیں، ان کی رائے میں ، یہ انتخابات بالکل ویسے بھی نہیں ہوں گے جیسے مظاہرین چاہتے ہیں اور وہ نئی سیاسی شخصیات کو اقتدار میں نہیں لائیں گے۔
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ انتخابات میں سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے نتیجے میں آنے والی قوتوں کے عراق میں سیاسی منظر کو بدلنے کا امکان نہیں ہے، تاہم وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے وقت سے پہلے موجودہ سیاسی نقل وحرکت سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ایک ہی سیاسی تشکیل کو دہرایا نہیں جا رہا ہےجبکہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ عراق میں صدر دھڑے کے رہنما مقتدا الصدر کردستان ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مسعود بارزانی اور متعدد سنی سیاسی تنظیموں کے ساتھ اتحاد کے قیام کے لئے حتمی معاہدہ کر چکے ہیں تاکہ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اس کا اعلان کیا جائے۔
دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ فتح اتحاد اور کچھ شیعہ سیاسی قوتیں کردستان کی پیٹریاٹک یونین اور متعدد سنی سیاسی قوتوں کے قریب ہو رہی ہیں،حارث حسن کے مطابق ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کم سے کم ، "اصلاحات” اور "تعمیراتی” اتحادوں کے تجربے کو دہرایا جائے گا ، لیکن اس بار یہ مضبوط اور زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا اور غالبایہ اقلیت اور اکثریت والے حقیقی اتحاد ہوں گے۔