سچ خبریں:طالبان کی جانب سے افغان حکومت کی تشکیل میں چھ ممالک کو شرکت کی دعوت دیے جانے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گروپ عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے جبکہ بہت سے ممالک نے طالبان کے رویے کو پہچاننے کے لیےانتظار اور دیکھنے کی پالیسی کو اپنایا ہے۔
ذرائع ابلاغ نے لکھا کہ طالبان کی جانب سے حکومت بنانے کی تقریب میں شرکت کے لیے مدعو کیے گئے ممالک کی فہرست میں ان کے پرانے دوست اور نئے اتحادی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان اور قطر کے ہمیشہ طالبان کے ساتھ خوشگوار تعلقات رہے ہیں ،تاہم اس گروپ کا دوسرے ممالک کو مدعو کرنے کا اقدام افغانستان میں پرامن حل تلاش کرنے کا حصہ ہے،یادرہے کہ پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا نیز حال ہی میں پاکستانی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ ان کا ملک طالبان کا حامی ہے اور طالبان کو بھی یقین ہے کہ پاکستان ان کا دوسرا گھر ہے لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ پاکستانی حکومت طالبان کو تسلیم کرنے والی پہلی حکومت بن جائے۔
یادرہے کہ قطر نے 1990 کی دہائی میں طالبان کو تسلیم نہیں کیا لیکن اس ملک کے اس گروپ کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات رہے ہیں اسی لیے قطر نےطالبان کے امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے دوحہ کو ایک اڈے میں تبدیل کر کے ثالث کا کردار ادا کیا ہے،ادھرچین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتا ہے لیکن طالبان کو تسلیم کرنے میں جلد بازی میں فیصلہ کرنے کا امکان نہیں ہے۔
گرچہ بیجنگ افغانستان کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو ترقی دینے کے موقع کے طور پر دیکھتا ہے ، لیکن سلامتی اور استحکام کے مسائل تشویشناک ہیں، چین کی ہچکچاہٹ اس وقت ظاہر ہوئی جب اس ملک کی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس کے پاس طالبان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ وہ اسے افغان حکومت کی تشکیل میں شرکت کی دعوت دیں۔
روس طویل عرصے سے جنگ زدہ ملک افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے مختلف کوششوں کے ذریعے طالبان سے رابطے میں ہےجبکہ ترکی جس نے 2001 میں افغانستان میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے آپریشن میں حصہ لیا تھا ، اب نیٹو اور امریکی افواج کے انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کواپنے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتا ہے۔