سچ خبریں:صیہونی حکومت مشرقی یروشلم میں امریکی قونصل خانہ کھولنے، اس شہر کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے، یروشلم کو اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تقسیم کرنے کی واشنگٹن کی پرانی پالیسی پر واپس آنے اور آخرکار ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بارے میں فکر مند ہے۔
صیہونی اخبار اسرائیل الیوم کی رپورٹ کے مطابق مشرقی یروشلم میں امریکی قونصل خانہ کھولنے کے بارے میں صہیونی سفارت کاروں کی جانب سے پیش کیا گیا مایوس کن منظر نامہ کنسیٹ کی جانب سے بجٹ کی منظوری کے بعد آنے والے ہفتوں میں سچ ثابت ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ مشرقی یروشلم میں واشنگٹن قونصلیٹ کی نگرانی امریکی محکمہ خارجہ کرتا ہےنہ کہ تل ابیب میں امریکی سفارتخانہ اور اس نے مقبوضہ یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں امریکی سفارت خانے کے طور پر برسوں تک خدمات انجام دیں۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں تل ابیب سے یروشلم منتقل کیے جانے والےامریکی سفارت خانے کی سرگرمیوں کو فلسطینی امور سے نمٹنے والے قونصل خانے کی سرگرمیوں سے الگ کر دیا جائے۔
صیہونی اخبار نے لکھا کہ درحقیقتدو الگ الگ امریکی سفارتی مشن یروشلم میں کام کریں گے،ایک سفارت خانہ جو صیہونی حکومت کے امور کی دیکھ بھال کرے گا اور دوسرا ایک قونصل خانہ جو درحقیقت ایک سفارت خانے کے طور پر کام کرے گا اور یروشلم، مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے ساتھ معاملات طے کرے گا۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ امریکی اقدام کو یروشلم کی تقسیم کی پیش کش کے طور پر دیکھتی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اگر ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اقدامات سے مکمل پسپائی نہ ہوئی تو یہ کسی نہ کسی طرح انہیں کمزور کر دے گا۔