سچ خبریں: صیہونی جیلوں سے آزاد ہونے والی فلسطینی خواتین اور بچوں نے رہائی کے بعد اپنے پہلے تبصروں میں صیہونی حکومت کی جیلوں کے حالات کو انتہائی جابرانہ قرار دیا ہے۔
صیہونی حکومت اور مزاحمتی گروپوں کے درمیان عارضی جنگ بندی کے دوسرے روز فلسطینی قیدیوں کی رہائی اگرچہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے قیدیوں کے تبادلے میں رکاوٹ کے باعث کئی گھنٹے تاخیر کا شکار ہوئی تاہم بالآخر گزشتہ صبح صیہونی حکومت کی جیلوں سے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: 5ہزار دن برزخ میں؛صیہونی جیلوں کی کہانی فلسطینی قیدی کی زبانی
اگرچہ صیہونی حکومت فلسطینیوں کو ان قیدیوں کے استقبال کے لیے اجتماع منعقد کرنے سے روکنے کے لیے فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کر رہی ہے تاہم عوام کے ایک بڑے ہجوم نے فلسطینی اسیران کا استقبال کیا۔
گزشتہ شب صہیونی جیل سے رہائی پانے والی معمر ترین فلسطینی خاتون قیدی میسون الجبالی نے الجزیرہ سے گفتگو میں قیدیوں کے خلاف قابضین کی سختی اور تشدد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں بہت سی خواتین قیدی بیمار ہو چکی ہیں،ان سختیوں میں سے جیل کے محافظوں کی طرف سے انہیں ہمیشہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس نے مزید کہا کہ اپنی حراست کے دوران ہمیں محافظوں کی طرف سے شدید بدسلوکی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
رہائی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے آزاد ہونے والی فلسطینی قیدی شروق دویات نے کہا کہ یہ خوشی غزہ کے مکینوں کی شہادت کے دکھ اور غم کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور ہمیں امید ہے کہ جنگ بند ہو جائے گی،انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے دوران صیہونی حکومت کی رکاوٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ قابضین قیدیوں پر نفسیاتی دباؤ اور طویل انتظار مسلط کرتے ہیں۔
دویات نے کہا کہ اسرائیل نے حال ہی میں جیل کے اندر سخت حالات پیدا کیے ہیں اور قیدیوں کو جبر اور بھوک اور پیاس کے ساتھ اذیتیں دی جاتی ہیں۔
اس فلسطینی خاتون قیدی نے مزید کہا کہ اس وقت 51 قیدی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں،اگرچہ مجھے جیل سے رہائی ملی ہے لیکن مجھے ان خواتین قیدیوں کے بارے میں تشویش ہے جو سخت جبر اور تشدد کے باوجود جیل میں ہیں۔
انہوں نے بیان کیا کہ جیل میں میں نے کم عمر فلسطینی لڑکیوں کو دیکھا جن کی عمریں 18 سال سے کم ہیں جبکہ صہیونی جیل میں قید سب سے کم عمر فلسطینی لڑکی کی عمر صرف 12 سال ہے، اسرائیل حراست اور پوچھ گچھ کے دوران ہمارے خلاف شدید ترین تشدد کرتا ہے۔
گزشتہ شب رہائی پانے والی ایک اور فلسطینی خاتون قیدی اسرا جعابیص نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہم خوش ہوتے ہوئے شرمندہ ہیں جب کہ پورا فلسطین سوگوار ہے، اسرائیلی جیلوں میں بہت سے فلسطینی قیدی زخمی ہیں، قابضین کی جیلوں میں قید تمام فلسطینیوں کی رہائی کے لیے کوشش کرنا ہوگی،فلسطینی لڑکیوں کو اسرائیلی جیلوں میں ناقابل بیان اذیت اور مشکلات کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمیشہ جیل میں مارا پیٹا جاتا تھا۔
صیہونی جیل سے رہا ہونے والے ایک فلسطینی بچے شادی نے کہا کہ اسرائیلی ہماری حراست کے دوران ہمیں مارا پیٹا کرتے تھے اور 7 اکتوبر کے آپریشن کے بعد 50 دنوں کے اس عرصے کے دوران انہوں نے ہمیں آرام کرنے یا چہل قدمی کرنے کی اجازت نہیں دی،بہت سے فلسطینی بچے اب بھی قابضین کی جیلوں میں قید ہیں۔
ایک اور فلسطینی بچہ وسام، جسے کل رات رہا کیا گیا تھا، کا کہنا ہے کہ اگرچہ میں زخمی ہوا تھا، لیکن حراست کے دوران میرا کوئی علاج نہیں ہوا، اس عرصے کے دوران صیہونی حکومت نے ہمارے ساتھ پرتشدد سلوک کیا۔
اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے ایک اور فلسطینی بچے یاسر زعایمہ نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں نے دوران حراست متعدد فلسطینی قیدیوں کی شہادت کا مشاہدہ کیا ہے،قابض افواج نے ہمیشہ کچھ بچوں کو مارا پیٹا جو مجدو جیل میں قید تھے،قابض جیلوں میں نظربندی کے غیر انسانی حالات کے نتیجے میں ہم نے بہت سی مشکلات برداشت کیں۔
ایک اور فلسطینی قیدی عمر الشویکی نے اپنی اور دیگر قیدیوں کی حراست کے حالات کو انتہائی مشکل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حراستی مرکز صرف 6 افراد کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس میں 12 افراد کو رکھا گیا ،جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میری عمر 15 سال تھی جبکہ 13 اور 15 سال کے بہت سے بچے صیہونی جیلوں میں قید ہیں،میں ان سب کو صبر کی تلقین کرتا ہوں۔
مزید پڑھیں: صیہونی جیلوں میں 700 بیمار فلسطینی قیدی
قابض جیلوں سے رہائی پانے والے ایک اور فلسطینی بچے محمد ابو عون نے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کے ساتھ صیہونی حکومت کا سلوک وحشیانہ ہے اور وہ ہمیشہ قیدیوں کی توہین کرتے ہیں، قیدیوں کو مارتے ہیں اور ان پر حملہ کرنے کے لیے کتوں کو چھوڑتے ہیں۔