سچ خبریں: مغربی ایشیائی مسائل کے ماہر اور تل ابیب یونیورسٹی کے نائب صدر ایال زیسر نے اسرائیل ہیوم اخبار میں شائع ہونے والے ایک نوٹ میں لکھا ہے کہ لوگوں نے یواف گیلنٹ کی برطرفی پر ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس ضمن میں اس ممتاز صہیونی ماہر نے مزید کہا کہ دوسرے لفظوں میں میں یہ کہوں گا کہ اسرائیل جنگ کے دوران اور اس وقت بھی اس کو سنبھالنے کے لیے حکمت عملی کا فقدان ہے، ہمارے پاس جنگ کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں ہے اور اس حکمت عملی کی عدم موجودگی میں یہ ایک واقعہ سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے، ہم ایک آپریشن سے دوسرے میں جدوجہد کرتے ہیں، جس نے ہمارے لیے جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔
اپنے نوٹ کے ایک اور حصے میں اس معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ فوج اور سیاسی ڈھانچے کے درمیان اعتماد کی کمی نے ان حالات کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کیا ہے، دراصل وزیراعظم فوج کو بتانا ہی نہیں چاہتے اس جنگ سے اس کے اصل اہداف کیا ہیں اور یہ کس سمت جا رہی ہے وہ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا چاہتا ہے، غزہ میں جنگ اسی طرح چلتی ہے اور ہم ایک فوجی آپریشن سے دوسرے فوجی آپریشن میں جاتے ہیں، ہم غزہ شہر میں داخل ہوتے ہیں۔ غزہ کے شمال میں جب حالات بہتر ہوتے ہیں تو ہم خان یونس کی طرف بڑھتے ہیں اور آخر کار رفح پہنچ چکے ہیں، یہ تمام اقدامات ایک جامع پروگرام کے طور پر نہیں کیے جاتے بلکہ ایک دوسرے سے الگ الگ اقدامات کیے جاتے ہیں۔
اس سے حماس کو اس قسم کی جنگ کی عادت پڑ گئی اور ایک طویل جنگ کا منصوبہ بنایا گیا، جب کہ ہمیں افق پر اس جنگ کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔