سچ خبریں:صیہونی میڈیا نے ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کیے گئے نئے اقدامات کا انکشاف کیا۔
العربی الجدید کی رپورٹ کے مطابق صہیونی میڈیا نے سعودی عرب کے ساتھ صیہونی حکومت کے تعلقات معمول پر لانے کے میدان میں کیے جانے والے نئے اقدامات کی خبر دی ہے،صیہونی اخبار اسرائیل ہیوم نے اتوار کے روز انکشاف کیا کہ امریکہ اس حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں پیش رفت کے لیے سعودی عرب کی درخواستوں پر غور کر رہا ہے۔
اس اخبار نے ایک امریکی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ریاض نے ایران کے ساتھ ہونے والی حالیہ قربت کے باوجود اس موقف کا اظہار کیا ہے، اخبار کے مطابق سعودی عرب نے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے 4 شرائط رکھی ہیں جن میں پرامن مقاصد کے لیے جوہری پاور پلانٹس بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ ، دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ریاض کی پالیسیوں پر تنقید کو روکنا شامل ہے۔
صہیونی ذرائع ابلاغ نے گزشتہ ہفتے مقبوضہ علاقوں کا دورہ کرنے والے فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سانٹیس کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ایران کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی اسرائیل اور عرب اتحاد بنانے کا موقع ابھی موجود ہے اور یہ ایک ایسا ہدف ہے جس کو حاصل کیا جا سکتا ہے،تاہم یہ مسئلہ سعودی عرب کے ساتھ تعامل میں امریکہ کے درست انتظام کا متقاضی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا انحصار اس پالیسی پر ہے جو امریکہ ریاض کے بارے میں اختیار کرے گا،رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ثالثی کے ذمہ دار ہیں۔
گراہم نے بائیڈن انتظامیہ کو بتایا کہ ریپبلکن پارٹی کا رکن ہونے کے باوجود اگر امریکی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کے مطالبات پورا کرنا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا باعث بنتا ہے تو ہم یہ مطالبات مان لیں گے۔
اخبار نے لکھا کہ تاہم سعودی عرب کی جانب سے پرامن مقاصد کے لیے جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی درخواست پرعمل بہت حساس ہے، اخبار نے یہ بھی یاد دلایا کہ نیتن یاہو نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے معاہدے کو اپنی کابینہ کی اہم ترجیح بنایا ہے۔