سچ خبریں:ایک برطانوی اخبار نے سعودی عرب میں سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے محمد بن سلمان کے دوہرے معیار کے بارے میں اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ اس ملک میں تقریبات اور تفریحی پروگراموں کی اجازت ہے لیکن حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقید اور اپنی رائے کا اظہار کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔
برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے دوہرے معیار کے بارے میں رپورٹ لکھی ہے کہ سعودی عرب میں تفریحی تقریبات اور پارٹیوں کے انعقاد کی اجازت ہے لیکن حکومت پر کسی بھی قسم کی تنقید اور اپنی رائے کا اظہار ممنوع ہے۔
اس برطانوی اخبار نے سعودی معاشرے میں محمد بن سلمان کی نافذ کردہ سماجی تبدیلیوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ وہ نیا سعودی عرب ہے جہاں نئی سماجی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور مرد وخواتین کی مشترکہ پارٹیاں اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اورکچھ نوجوان شراب نوشی بھی کرتے ہیں، یہ حرکتیں ایک ایسے ملک میں ہوتی ہیں جہاں اسلامی قوانین کی بنا پر اس ملک میں پچھلے 5 سال تک موسیقی کی اجازت بھی نہیں تھی۔
سعودی عرب میں اب بھی الکحل مشروبات اور منشیات پر پابندی ہے لیکن دنیا کی ہر جگہ کی طرح اس ملک میں بھی انہیں تلاش کرنے کے طریقے موجود ہیں، اس برطانوی اخبار نے لکھا کہ لیکن یہ سماجی تبدیلیاں سکے کا صرف ایک رخ ہیں، سعودی عرب میں جبر کی شدت پہلے سے کہیں زیادہ ہوا ہے، یاد رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنی مضبوطی کے لیے محمد بن سلمان کو وزیراعظم مقرر کیا تھا،اس سے پہلے سعودی ولی عہد نے مخالفین ، ناقدین، تاجروں، سرکاری اداروں اور شہزادوں کی آوازوں کو دبا کر اس ملک میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کی کوشش کی ، ان میں سے بہت سے لوگوں کے سفر پر پابندی لگا دی اور بعض کو حکومت کو بھاری رقوم ادا کرنے پر مجبور کیا گیا۔
سنڈے ٹائمز نے مزید لکھا کہ اگرچہ سعودی عرب میں اظہار رائے کی آزادی ہمیشہ محدود رہی ہے لیکن بن سلمان کے دور میں یہ خاصی حد تک محدود ہو چکی ہے،سعودی عرب میں ساورن ویلتھ فنڈ اب ٹویٹر میں ایک بڑا حصہ رکھتا ہے جس کے اس ملک میں تقریباً 14 ملین صارفین ہیں، اس طرح آل سعود محمد بن سلمان کی اصلاحات اور پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کسی بھی شخص کو حراست میں لے سکتا ہے، چاہے کوئی شخص انسانی حقوق کے دفاع میں کوئی ٹویٹ شائع کرے۔
متذکرہ اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی کے خاتمے کے ساتھ کئی خواتین کارکنان کی گرفتاری بھی ہوئی جو برسوں سے یہ حق حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، ان کارکنوں کو جیلوں میں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا، ان کی توہین کی گئی اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے، ان میں کچھ اب بھی گھروں میں نظر بند ہیں، متذکرہ اخبار نے تاکید کی کہ بن سلمان نے 2017 میں اقتدار میں آنے کے بعد سعودی معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی، جیسا کہ مذہبی پولیس کے اختیارات میں کمی، سینما گھر کھولنا، ملی جلی تقریبات کا انعقاد اور فٹ اسٹمپنگ جبکہ یہ اس وقت ہوا جب محمد بن سلمان کے حامی اور وفادار لوگوں نے یہ دلیل دے کر ان کے منصوبوں کو جائز بنانے کی کوشش کی کہ سعودی عرب میں سخت پابندیاں حقیقی مذہب سے انحراف ہیں۔