سچ خبریں:سعودی عالم دین کے بیٹے نے آل سعود کی جیلوں میں سیاسی قیدیوں کی حالت زار کے بارے میں ویڈیو جاری کی ہے۔
سعودی عالم دین عوص القرنی کے بیٹے ناصر القرنی نے ایک ویڈیو میں اعلان کیا ہے کہ سیاسی قیدی حراستی مراکز میں پلاسٹک کے گندے کنٹینرز میں کھانا کھاتے ہیں اور ان کے حراستی مراکز میں ہوا صاف کرنے والے آلات نہیں ہیں،انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے قیدی طویل عرصے تک ایسے حالات میں رہتے ہیں۔
واضح رہے کہ زیر حراست افراد کے اہل خانہ نے بھی بتایا کہ وہ اپنے بچوں سے بات چیت کے لیے بہت زیادہ اخراجات اٹھا رہے ہیں،ناصر القرنی نے اپنے صارف اکاؤنٹ پر ایک کلپ شائع کی جس میں انہون نے کہا کہ میں ناصر ہوں اور میرے والد ڈاکٹر عوض القرنی ہیں جنہیں سعودی حکام پھانسی دینا چاہتے ہیں، آج میں اس ویڈیو میں اعلان کرتا ہوں کہ میں اپنا ملک چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنے والد کے دفاع کے لیے سعودی عرب کو چھوڑا ہے اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ ملک کے اندر رہ کر بات کرنے پر گرفتار کر لیا جاتا ہے بلکہ جب میں خاموش رہا تب بھی مجھے گرفتار کیا گیا، صرف اس لیے کہ میں ڈاکٹر عوض القرنی کا بیٹا ہوں۔
گرفتاریوں کی لہر ستمبر 2017 میں 21 افراد کی گرفتاری کے ساتھ شروع ہوئی، جن میں سے زیادہ تر نامور عالم دین تھے جن میں سلمان العودہ،عوض القرنی اور علی العمری شامل تھے،اس کے بعد سے وہ بغیر کسی مقدمے کے نظر بند ہیں جب کہ انسانی حقوق کے بہت سے حلقے اور حزب اختلاف ان کے خلاف سزائے موت کے اجراء پر پریشان ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سعودی جیلوں میں وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والی اجتماعی تقریبات میں قیدی ایک بڑے ہال میں داخل ہوتے ہیں اور پھر انہیں زبردستی برہنہ کرکے لاٹھیوں اور لوہے کی زنجیروں سے مارا جاتا ہے اور کئی اہلکار اور افسران بیٹھ کر یہ سب منظر دیکھتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب سیاسی قیدیوں کے خلاف طرح طرح کے ذہنی اور جسمانی تشدد کرتا ہے جنہیں بعد میں سزائے موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دوران حراست انہیں مار پیٹ اور زبردستی ملک بدری کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بعض صورتوں میں بہت طویل ہوتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی حکام قیدیوں کے خلاف جسمانی تشدد کے غیر انسانی طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں بجلی کے جھٹکے، نیند کی کمی، مار پیٹ، ناخن کھینچنا، الٹا لٹکانا اور دیگر حربے شامل ہیں، جن کا مقصد حراست میں لیے گئے شخص کو دوران تفتیش اعتراف جرم کرنے پر مجبور کرنا ہوتا ہے۔