سچ خبریں:فلسطین کی زیڈ جنریشن صیہونیوں کے لیے حل کے بغیر ایک چیلنج ہے گویا اس کی جدوجہد اور دباؤ دوسری نسلوں سے مختلف ہے،یہ نسل ایک ایسی نسل ہے جو مختلف انداز میں جیتی ہے، الگ سوچتی ہے اور مختلف طریقے سے لڑتی ہے۔
2010 کے بعد سے فلسطین کی ایک نئی نسل اپنی تقدیر بنا رہی ہے جسے اوسلو کے بعد کی نسل سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی ایک ایسی نسل جو اب بیس سال کی ہو چکی ہے اور اس نے اوسلو سے پہلے کا راستہ اور اس کے لیڈروں کے فیصلوں کو نہیں دیکھا اور نہ ہی اس نے اوسلو کو ایک واقعہ کے طور پر دیکھا ہے بلکہ اس نے اوسلو کو نتیجہ سمجھا اور اپنے ارد گرد تلاش کیا، ایسی نسل جسے اوسلو سے آزادی اور شناخت نہیں ملی، تیسرے انتفاضے کے نام سے مشہور 2015 اور 2016 کے واقعات کو کچھ لوگوں نے فلسطین میں اوسلو کے بعد کی نسل کا کامل آئینہ سمجھا لیکن 2022 میں فلسطینی دنیا نے ایک نئی نسل دیکھی، ایک ایسی نسل جس کے بارے میں بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس نے نئے خیالات اور رویوں کے ساتھ ایک نئی دنیا کا آغاز کیا ہے، وہ نسل جس کی عمر اب 20 سال ہو چکی ہے اور اس نے نہ تو اوسلو دیکھا ہے اور نہ ہی سنہ 2000 کا فلسطینیوں کا پرجوش نانتفاضہ دیکھا ہے۔
کچھ نے نئی نسل کے لیے زیڈ جنریشن کا جانا پہچانا نام منتخب کیا ہے، ایسا انتخاب جو بظاہر عقلمندی لگتا ہے اور ہمیں زیادہ درست سمجھ کے قریب لاتا ہےمثال کے طور پر الجزیرہ کے انگریزی زبان کے کالم نگار ہیثم الجاسمی نے زیڈ جنریشن فلسطین کو آزاد کرائے گی” کے عنوان سے لکھے جانے والے اپنے ایک کالم میں فلسطین کی نئی نسل کا تعارف کرایا ہے، وہ نسل جس نے 2022 میں مغربی کنارے کے نابلس، جنین اور قدس میں مختلف حالات پیدا کیے۔
فلسطین کی زیڈ جنریشن میں کئی الگ خصوصیات ہیں:
1۔ سیاسی لیڈروں اور سیاسی صورتحال یہاں تک کہ موجودہ حالات سے آزادی۔
2۔ ماضی کے افسانوں سے محبت کرنے والے۔
3۔ میڈیا سے لے کر ہتھیاروں تک ہمہ جہت جدوجہد۔
4۔ جدوجہد اور آزادی کے امکان پر یقین۔
5۔ تاریخ سے برآمد ہونے والی خود اعتمادی ۔
فلسطین کی زیڈ جنریشن کا رویہ اور خیالات 2022 اور 2023 کے مختلف آپریشنز اور اس کے واقعات میں دیکھے جا سکتے ہیں، ایک ایسی نسل جو خود مختار تنظیموں کے سیاسی دھاروں سے آزاد ہو چکی ہے اور نازک حالات میں بھی محمد ضیف اور ابو عبیدہ (حماس کے رہنما اور فوجی ترجمان) کو پکارتی ہے،زیڈ جنریشن فلسطین کو اپنے مسلح راستے پر فخر ہے، اس نسل کو دنیا کی2022 کی نسل کی طرح تفریح پسند ہے، انہیں سوشل میڈیا پسند ہے،وہ اسے اور اپنی زندگیوں کو جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
فلسطین کی زیڈ جنریشن اپنے ہم عصروں کی طرح زیادہ لاپرواہی سے تنقید کرتی ہے اور اپنے ماضی سے الگ اور انقلابی راستہ تلاش کرتی ہے،یہ نسل اپنے نوجوان اپنے ساتھیوں کے لیے رول ماڈل بن جاتی ہے جس کی ایک مثال ابراہیم نابلسی ہیں جن کی تصاویر اور الفاظ فلسطینی ذرائع ابلاغ میں ہنگامہ برپا کر دیتے تھے، اس طرح کہ صہیونی میڈیا نے شہید ابراہیم نابلسی کو بغض و عناد کی بنا پر ٹک ٹاک دہشت گرد قرار دیا ہے ،انہیں اندیشہ ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بن جائیں گے۔
فلسطین کی زیڈ جنریشن صہیونیوں کے لیے حل کے بغیر ایک چیلنج ہے،گویا اس کی جدوجہد اور دباؤ دوسری نسلوں سے مختلف ہے،یہ ایک ایسی نسل ہے جو مختلف انداز میں جیتی ہے، الگ سوچتی ہے اور مختلف طریقے سے لڑتی ہے،فلسطین کی اس نسل نے اپنا راستہ ڈھونڈ لیا ہے، وہ صرف اپنے وطن یا مذہب کے لیے لڑنے یا اپنا فرض نبھانے کے لیے میدان میں نہیں آئے ہیں بلکہ وہ نتائج کی تلاش میں ہیں۔