سچ خبریں: امریکی صدر جو بائیڈن نے اس ہفتے کے شروع میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں اپنے آئندہ دورہ سعودی عرب کے دفاع میں اپنے مضمون میں یمن جنگ بندی کا دفاع کرنے کا دعویٰ کیا ۔
لیکن امریکی حکومت کے احتساب کے دفتر GAO کی رپورٹ کا ذکر نہیں کیا۔ جس نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ اور پینٹاگون اب ریاض کو شہریوں کے خلاف امریکی فراہم کردہ ہتھیاروں کے استعمال کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہیں۔
روسی نیٹ ورک رشا توڈے کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف مشی گن میں مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی تاریخ کے پروفیسر جوآن کول نے کہا کہ بائیڈن نے یمن کی جنگ سے امریکہ کو مکمل طور پر الگ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ سعودی عرب مگر اس کو پورا کرنے میں ناکام رہا۔
کول نے نوٹ کیا کہ امریکہ نے مارچ 2015 میں یمن پر بمباری شروع کرنے کے بعد سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو 54.6 بلین ڈالر کا فوجی سازوسامان فراہم کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی قانون امریکی فوجی امداد کے وصول کنندگان سے شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنے کا تقاضا کرتا ہے لیکن کول نے کہا کہ سعودی قیادت والے اتحاد نے اس ضرورت کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے گزشتہ ماہ گورنمنٹ اکاونٹیبلٹی آفس GAO کی رپورٹ کی طرف بھی اشارہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومت نے اس قانون پر عمل درآمد کی زحمت نہیں کی۔
GAO کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے 2018 میں اس بات کی تصدیق کی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نےیمن میں شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کی کوششیں کی ہیں لیکن مطلوبہ ثبوت فراہم نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار ایسے شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہے کہ انہوں نے سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کو ترسیلی آلات کے ممکنہ غیر قانونی استعمال کے واقعات کی تحقیقات کیں۔ ساتھ ہی پینٹاگون نے اس حوالے سے کوئی تحقیقی رپورٹ فراہم نہیں کی۔