سچ خبریں:متعدد عرب ممالک کو رمضان کے مقدس مہینے میں داخل ہوتے ہی غذائی قلت اور غربت کے پھیلاؤ کی تشویش لاحق ہے نیز اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
خلیج الجدید نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ، برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے حال ہی میں رمضان المبارک کے مقدس مہینہ شروع ہوتے ہی عرب دنیا میں غذائیت کی شدید صورتحال سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی ہے، اس رپورٹ کے مطابق 12 عرب ممالک خاص طور پر شام اور یمن کے 60 ملین سے زیادہ افراد اس وقت غذائی قلت اور فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے حال ہی میں اندازہ لگایا ہے کہ دنیا بھر میں 960 ملین افراد کے پاس صحت مند زندگی گزارنے کے لئے کھانا نہیں ہے جن میں سےقریب 64 ملین لوگ ان 12 عرب ممالک میں رہتے ہیں جہاں جنگوں اور معاشی بحرانوں نے بھوک کو ان ممالک کے عوام کی زندگیوں پر ایک دائمی حقیقت کے طور پر مسلط کردیا ہے، یہاں تک کہ مستحکم ممالک اب عالمی سطح پر کھانے کی قیمتوں میں اضافے کے منفی نتائج سے پریشان ہیں۔
اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ شام اور یمن میں بھوک اور غذائیت کا مسئلہ دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ شدید ہے ، ان ممالک میں نصف سے زیادہ افراد بھوک کا شکار ہیں، شام میں ، روٹی ، چاول ، دال ، تیل اور چینی پر مشتمل کھانے پینے کی بنیادی اشیا کی قیمت میں گذشتہ فروری میں 2020 کے اسی مہینے کے مقابلے میں 222 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ان اشیا کی قیمت باقاعدہ ملازم کی ماہانہ تنخواہ کے دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔
ادھر یمن کے سلسلہ میں بھی اقوام متحدہ نے عنقریب امدادی ایجنسیوں کی مالی امداد میں کمی کی وجہ سے خوراک کی قلت کے ساتھ ، آنے والی تباہی کی بھی خبردار کیا ہے،واضح رہے کہ شام اور یمن دونوں ممالک میں ایندھن کی قلت کھانے کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنی ہے، دونوں ممالک میں گوشت طویل عرصے سے لگژری سامان بن چکاہے جبکہ بہت سارے لوگ اس کو خرید نہیں سکتے ہیں، پھل اور دودھ کی مصنوعات بھی لگژری سامان کی فہرست میں شامل ہیں۔
لہذا ان ممالک میں روٹی کیلوری کا سب سے سستا ذریعہ ہونے کی وجہ سے اکثر اپنے آپ میں کھانا بن جاتا ہے نہ کہ کھانے کا حصہ، تاہم لوگوں کو سرکاری سبسڈی کے ساتھ روٹی خریدنے کے لئے گھنٹوں قطاروں میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔