سچ خبریں: شام میں امریکہ کے سابق سفیر رابرٹ فورڈ نے شام میں تازہ ترین پیش رفت کے بارے میں گزشتہ رات فرانس 24 سے بات کی۔
سابق امریکی سفیر نے کہا کہ شام کی اپوزیشن بکھر چکی ہے اور ان اپوزیشن گروپوں کو متحد کرنے میں امریکی پالیسی ناکام ہو گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت شام کے 70 فیصد حصے پر قابض ہے جس میں بڑے شہروں بھی شامل ہیں مسلح اپوزیشن اسد کو ہٹانے میں ناکام ہے۔
فورڈ نے کہا کہ اگرچہ شام کی معیشت تباہ ہو چکی ہے لیکن آخر کار اسد نے گھریلو جنگ جیت لی ۔
انہوں نے بعض عرب ممالک اور دمشق کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عرب ممالک، نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ مصر اور اردن نے بھی تسلیم کیا ہے کہ شام کی حکومت برقرار ہے اور اقتدار میں رہے گی۔
سابق امریکی سفیر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ شام کی حکومت باقی ہے اور عرب ممالک کو اس کے ساتھ مل جل کر رہنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
فورڈ نے کہا کہ کوئی امریکی سیاستدان ایسا نہیں ہے جو دمشق کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے منصوبے کو منظور نہ کرے۔ امریکہ کی ایسی صورتحال ہے جو شام کے عرب پڑوسیوں سے مختلف ہے۔
فورڈ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ واشنگٹن نے محسوس کیا ہے کہ بعض عرب ممالک کو شامی حکومت کے ساتھ مل جل کر رہنے کا راستہ تلاش کرنے سے روکنا مشکل ہے تاہم انہوں نے نوٹ کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ دمشق کے ساتھ مل کر رہنے کی عرب ممالک کی کوششوں سے خوش ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ دمشق اور شامی صدر سے ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے سابق امریکی سفیر نے زور دیا کہ واشنگٹن اس عرب حکمت عملی کا متبادل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
انہوں نے ان عرب ممالک کے خلاف پابندیوں کو بھی مسترد کر دیا جو دمشق کے ساتھ معمول کے تعلقات کی طرف لوٹ آئے ہیں یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ بائیڈن حکومت اس وقت ایشیائی مسئلے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
رابرٹ فورڈ نے اپنے تبصرے کے آخر میں کہا کہ شام میں جو کچھ ہوا ہے اس کا ذمہ دار امریکہ ہے انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ان گروہوں کو ہتھیار بھیجے ہیں جو بات چیت کے ذریعے حل پر راضی ہیں۔