سچ خبریں:برطانوی پولیس نے ایک ایسے شخص کے خاندان سے معافی مانگ لی جسے 70 سال قبل اس کے خلاف نسل پرستی کی وجہ سے پھانسی دی گئی تھی۔
برطانوی پولیس نے جوڈیشل افسران کے نامناسب رویے کی وجہ سے 70 سال قبل مشکل حالات میں پھانسی پانے والے محمود متان نامی شخص کے اہل خانہ سے معافی مانگ لی، گارڈین اخبار کے مطابق برطانوی صومالی شہری اور تین بچوں کے والد محمود متان کو للی وولپرٹ کے قتل کے جرم میں ستمبر 1952 میں کارڈف کی ڈریس شاپ میں 28 سال کی عمر میں پھانسی دی گئی جبکہ متان آخری دم تک خود کو بے قصور سمجھتے رہے۔
اگرچہ اس وقت ان کے اہل خانہ نے بہت کوششیں کیں لیکن ان کا مقدمہ 1998 میں کریمنل انویسٹی گیشن کمیشن کے پاس گیا جسے اپیل کورٹ میں منسوخ کر دیا گیا، ساؤتھ ویلز کے پولیس چیف جیریمی وان نے کہا کہ یہ اس وقت پورے معاشرے کے ساتھ ساتھ فوجداری نظام انصاف میں نسل پرستی اور تعصب کا معاملہ تھا، واضح رہے کہ مغربی معاشرے میں نسل پرستی کئی سالوں سے چلی آ رہی ہے، خاص کر امریکہ اور یورپ میں۔
حال ہی میں اس سال جون میں فرانسیسی مظاہرین نے اس ملک کے پارلیمانی انتخابات سے قبل پیرس میں ایک مظاہرہ کیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ نسل پرستی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔
دوسری طرف امریکی معاشرے میں بڑھتے ہوئے نسلی تشدد کے ساتھ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک امریکی معاشرے میں نسل پرستی کی بو موجود ہے، یہ ملک ایک مہذب معاشرے کے ڈھانچے کو دکھاوے کی پالیسیوں کے ساتھ فراہم کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔