سچ خبریں:امریکہ یمن بحران کو غلط انداز میں پیش کرکےاس جنگ میں اپنے منافقانہ کردار کو چھپانے کے ساتھ ساتھ مغربی مداخلتوں کے خلاف کامیاب علاقائی اتحاد کو سنسر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں چین کی میزبانی میں طے پانے والے معاہدے پر بڑے پیمانے پر علاقائی اور عالمی ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ، تاہم اس حوالے سے امریکی حکام کا موقف قابلِ غور ہے،امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اس معاہدے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کوئی بھی چیز جو کشیدگی کو کم کرنے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے اقدامات کو روکنے میں مدد کر سکتی ہے ایک اچھی چیز ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر اور نائب مستقل نمائندے جیفری ڈیلرانٹس نے بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ حالیہ معاہدہ یمن میں تنازع کے دیرپا حل کے حصول کی کوششوں میں مدد کرے گا،امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس اور وائٹ ہاؤس کے اسٹریٹجک امور کے کوآرڈینیٹر جان کربی نے بھی دعویٰ کیا کہ اس معاہدے سے یمن جنگ کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر امریکی حکام کے ردعمل میں قابل ذکر نکتہ یمن میں جنگ کے کلیدی الفاظ پر منحصر ہے،اگرچہ امریکی یہ دکھاوا کرتے ہیں کہ وہ یمن میں جنگ کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس جنگ کے بارے میں ان کا اور ان کے یورپی شراکت داروں کا طرز عمل خود غرضانہ نظریہ کو ظاہر کرتا ہے۔
ان سالوں میں مغرب نے یمن کے لیے کئی اہداف مقرر کیے ہیں، یمن مخالف اتحاد کو ہتھیار فروخت کرنا، یمن کا تیل چوری کرنا، اس ملک کے بحران کو برقرار رکھنا اور صیہونی حکومت کے مفادات کا تحفظ ان مقاصد میں سے اہم ترین ہیں۔ ،دوسرا نکتہ یہ کہ امریکی حکام کی طرف سے امن اور دوستی کے دعوے کیے جاتے ہیں جب کہ ان برسوں میں مغرب نے یمنی عوام پر دباؤ بڑھانے، وسیع پابندیاں عائد کرنے اور سلامتی کونسل میں اس ملک کے خلاف قراردادیں پاس کروانے سے لے کر اس کے تیل کے وسائل کو چوری کرنے تک کوئی بھی اقدام ترک نہیں کیا، اس کے علاوہ القاعدہ اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنا مغربیوں کے ریکارڈ میں دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ ایک طرف یمنی قوم نے انصاراللہ کو عالمی سطح پر اپنے نمائندے کے طور پر متعارف کرایا ہے اور امن مذاکرات اسی یمنی انتخاب کو مرکوز رکھ کر منعقد کیے گئے ہیں، لیکن مغرب نے انصاراللہ سے محاذ آرائی کے بہانے یمنی قوم کے خلاف اپنی پابندیوں اور جرائم کو جائز قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ نے کئی بار لاکھوں بچوں سمیت 20 ملین یمنیوں کی بھوک اور تشویشناک صورتحال کے بارے میں خبردار کیا ہے لیکن مغرب نے نہ صرف یہ کہ ان بحرانوں کے حل کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے بلکہ اس ملک میں منشیات اور خراب خوراک بھی بھیجی ہے وہ بھی اقوام متحدہ کے نام پر۔
اس کے ساتھ ساتھ مغربی ذرائع ابلاغ خواتین کی حمایت کے نعرے کے تحت ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں جنہوں نے ان سالوں میں یمنی خواتین کی خطرناک صورتحال کے حوالے سے کبھی کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔
اس وقت امریکی رہنما یمن میں پیش آنے والی صورتحال پر ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مثبت اثرات کی حمایت کے نام پر ایک نئی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
مغرب اب ایک طرف یمن میں اپنے مفاداتی کردار کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف اس خطے کے بحرانوں کو مسلمانوں اور ایک اندرونی معاملہ سے منسوب کر کے دنیا میں اسلام فوبیا کی نئی جہتیں کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نیز اس سلسلے میں امریکی حکام کے دعووں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یمن کو ایران کی جانب سے ہتھیاروں کی حمایت کے بارے میں اپنے جھوٹے دعووں کو دہراتے ہوئے خطے میں نئی فتنہ انگیزی اور دنیا میں ایرانو فوبیا پھیلانے کے درپے ہیں۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ اور یمن پر اس کے اثرات امریکی دعووں کی صورت میں نہیں بلکہ مغرب کی بحران پیدا کرنے والی مداخلتوں سے نمٹنے کے لیے ایک متفقہ نقطہ نظر کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی یمن کے بحران کو غلط انداز میں پیش کر کے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ مغربی مداخلتوں کے خلاف علاقائی ہم آہنگی ہی مسائل کے حل کی بنیاد ہے۔