سچ خبریں:یمن کے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اس جنگ کی دلدل سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے،وہ بھی ایسے وقت میں جب اس کے اہم اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔
یمن کے مختلف محاذوں پر حالیہ پیش رفت اور انصار اللہ کی مسلسل فتوحات کے تناظر میں یہ ملک امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اسٹریٹجک مفادات اور نقطہ نظر کا سنگم بن چکا ہے، یمنی جنگ کے آغاز کے تقریباً سات سال بعد، واشنگٹن اور ریاض کواس ملک میں انصار اللہ کو شکست دینے اور مفرور یمنی صدر عبد المنصور ہادی کی حکومت کو مستحکم کرنے کے اپنے بیان کردہ اہداف کے حصول میں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے اس تباہ کن جنگ کو تقریباً 7 سال گزر چکے ہیں، تاہم سعودی عرب اور امریکہ ان دونوں مقاصد میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کر سکے بلکہ اس جنگ نے خطے میں ایک نئی سیاسی-فوجی-اقتصادی حقیقت کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں سعودی عرب اور اس کے جنگی اتحادیوں بشمول امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور ریاض کو اپنے عزائم سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونا پڑا، تاہم ایک ایسے وقت میں جب یمنی جنگ اب مأرب کے محاذ پر منتقل ہو چکی ہے اور انصار اللہ کی افواج اس سٹریٹجک خطے کو فتح کرنے سے زیادہ دور نہیں ہیں، سعودی اب بھی امریکہ پر اعتماد کر رہے ہیں اور امید کر رہے ہیں کہ یہ منظر بدل سکتا ہے اور وہ خود بھی اس جنگ سے بچے گا اور سعودی عرب کو بچائے گا۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے سابق امریکی نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ شنکر نے اس ماہ کے شروع میں ایک مضمون میں زور دیا تھا کہ یہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا حوثیوں کی مکمل فتح کو روکنے نیز سعودی عرب یا یمن کی جنگ میں امریکی فوج کی براہ راست شمولیت کا سوال نہیں ہے ؟