سچ خبریں: بلاشبہ آج امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس ملک کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے، امریکی حکام نے غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کو مجرمانہ قرار دے کر طلباء کو فلسطینی بچوں کی نسل کشی کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن اب وہ خود عوامی رائے عامہ اور طلباء کی تحریکوں کے سامنے بڑے مجرم بن چکے ہیں اور انہیں اپنے سروں پر عوامی مؤاخذے کا سایہ محسوس ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی پولیس طلباء کے ساتھ کیا کر رہی ہے؟؛ سی این این رپورٹ
تقریباً چار ماہ قبل غزہ جنگ کے دوران ہارورڈ یونیورسٹی میں کچھ خاص ہوا، اس یونیورسٹی کے سیاہ فام صدر کلاڈین گی کو یہود دشمنی کے الزامات اور غزہ کے لوگوں کے دفاع میں طلباء کی تحریکوں کو روکنے میں ناکامی کی وجہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔
اس وقت، امریکی حکام ملک بھر میں احتجاج کرنے والے طلباء کو ایک خصوصی پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کی ہمت نہیں ہونی چاہیے، ان طالب علموں کو چھوڑ دیں جن کی زندگیوں اور تعلیم پر امریکی حکومت کا غلبہ ہے اور وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو گرفتار کر سکتے ہیں یا کسی بھی وقت تعلیم سے محروم کر سکتے ہیں۔ !
اس ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی حکام نے فلسطینی بچوں کے خون بہانے کے خلاف احتجاج کرنے پر ہزاروں طلباء پر حملہ کیا اور انہیں دھمکیاں دیں نیز احتجاج کرنے والے غیر ملکی طلباء کو امریکی سرزمین سے ملک بدر کرنے کا عندیہ بھی کیا۔
وائٹ ہاؤس کے رہنماؤں کا خیال تھا کہ ہارورڈ یونیورسٹی کی صدارت سے Claudine Gay کو ہٹانے سے یہ پیغام امریکہ کی طلباء تحریک تک پہنچ جائے گا اور اس کے نتیجے میں وحشی صیہونی حکومت کی نوعیت اور اس کے مغربی حامیوں کی کارکردگی کے خلاف کسی بھی احتجاج کے راستے کو بند کر دیا جائے گا لیکن آج ٹیکساس سے کیلیفورنیا تک امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نے اس مضحکہ خیز مفروضے پر ایک غلط لکیر کھینچ دی ہے۔
امریکہ کی طلباء تحریک اپنی پختگی کے مرحلے کو پہنچ چکی ہے اور اسے نہ صرف اس ملک میں اقتدار کی کھلی اور چھپی ہوئی لابیوں سے روکا نہیں جا سکتا بلکہ ہم مغرب کے دیگر حصوں (بشمول یورپی ممالک) تک اس کی توسیع کا مشاہدہ کریں گے، شاید اگر امریکی حکام ہارورڈ یونیورسٹی کے اس سروے کو سنجیدگی سے لیتے کہ 18 سے 24 سال کی عمر کے 51 فیصد امریکی نوجوان صیہونی غاصب حکومت کے وجود اور اس کی نوعیت سے متفق نہیں ہیں تو وہ اس وسیع پیمانے پر سامنے آنے والی تحریک کا مشاہدہ نہ کرتے، آج ملک ہے لیکن مغرب کو ہوش بہت دیر سے آیا ہے!
امریکہ میں طلباء کے حالیہ احتجاج میں جو مطالبات اٹھائے گئے ہیں وہ واضح ہیں؛ غزہ میں جنگ اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا خاتمہ، بیت المقدس کی قابض حکومت کے ساتھ امریکی علمی تعلقات منقطع کرنا اور صیہونی حکومت کے رہنماؤں اور غزہ کی نسل کشی کے حامیوں کے خلاف مقدمہ چلانا۔
مختلف امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والی حالیہ تحریکوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے طلباء ان مطالبات کو پورا کرنے میں سنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں گرفتاری، تعلیم سے محرومی، دھمکیوں اور تشدد جیسی قیمتیں بھی ادا کرنے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: طلباء پر امریکی پولیس کے تشدد کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹر کا ردعمل
امریکی وفاقی پولیس کی بربریت اور احتجاج کرنے والے طلباء پر یہود دشمنی کا الزام لگانا انہیں اس شعوری اور پرجوش راستے سے نہیں روک سکتا، بلاشبہ آج امریکی یونیورسٹیوں میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس ملک کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے۔
امریکی حکام نے غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کو مجرمانہ قرار دے کر طلباء کو فلسطینی بچوں کی نسل کشی کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی لیکن اب وہ خود عوامی رائے عامہ اور طلباء کی تحریکوں کے سامنے بڑے مجرم بن چکے ہیں اور انہیں اپنے سروں پر عوامی انتقام کا سایہ محسوس ہوتا ہے، امریکہ اور یورپ میں فلسطین کا دفاع کرنے والی طلباء تحریک کی فتح میں زیادہ وقت باقی نہیں ہے۔