?️
امریکی، قطری اسرائیلی اجلاس اور فلسطینی وفد پر حملے کے پسِ پردہ حقائق
نیویارک میں منعقد ہونے والا سہ فریقی امریکی، قطری اور اسرائیلی اجلاس ایک بار پھر میڈیا اور تجزیہ کاروں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ لبنانی تجزیہ کار اور بین الاقوامی ماہرین و تجزیہ کاروں کی انجمن کے رکن عدنان علامہ کے مطابق، اگرچہ اس اجلاس کا سرکاری مقصد تعلقات کی بحالی بتایا گیا، تاہم شواہد اور تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ اس کے حقیقی پہلو معمول کی سفارت کاری سے کہیں آگے تھے اور اس کا تعلق خطے میں پیش آنے والے ایک حساس اور ناکام آپریشن سے ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں حالیہ برسوں کے دوران بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سیاسی تبدیلیوں نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ پسِ پردہ ہونے والے واقعات خطے کے امن و سلامتی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ نیویارک اجلاس، جو بظاہر تعلقات کی بحالی کے عنوان سے منعقد ہوا، درحقیقت پیچیدہ سیاسی کوششوں کی ایک مثال ہے، جو حساس کارروائیوں اور پسِ پردہ فیصلوں سے جڑی ہوئی ہے۔
اسی تناظر میں، عدنان علامہ نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس محض ایک سفارتی ملاقات نہیں تھا بلکہ ایک ناکام اور پیچیدہ آپریشن کا جائزہ لینے سے مشابہ تھا، جس کا مقصد فلسطینی مذاکراتی وفد کو نشانہ بنانا تھا۔
ان کے مطابق، فلسطینی وفد کی رہائش گاہ پر اسرائیلی حملہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی کسی انٹیلیجنس غلطی کا نتیجہ، بلکہ یہ ایک نہایت منظم کارروائی تھی، جسے صرف وہی فریق انجام دے سکتا تھا جو وفد کے قیام، نقل و حرکت اور سیکیورٹی انتظامات کی مکمل تفصیلات سے آگاہ ہو، اور وہ فریق میزبان ملک قطر کے سوا کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
عدنان علامہ نے ایک اور اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا کہ فلسطینی وفد کی گاڑی کو آخری لمحات میں غیر متوقع طور پر تبدیل کیا گیا، جس کے بعد ایک ایسا حادثہ پیش آیا جس میں سوار افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے بقول، اسے محض ایک سادہ حادثہ قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ عین وقت پر گاڑی کی تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی فریق کو وفد کی نقل و حرکت اور وقت کی مکمل معلومات حاصل تھیں۔
انہوں نے کہا کہ گاڑی کا حادثہ اور فضائی حملہ دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں: یا تو فضائی حملہ کامیاب ہوتا، یا زمینی سطح پر “تکنیکی حادثہ” اس مشن کو مکمل کر دیتا۔
سیاسی ردِعمل کے حوالے سے، امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حملے سے پیشگی لاعلمی کے انکار کو بھی علامہ نے قابلِ غور قرار دیا۔ ان کے مطابق، اتنی حساس اور درست کارروائی، پیچیدہ سیاسی حالات میں، وائٹ ہاؤس کی معلومات یا کم از کم خاموش رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا انکار دراصل اپنی ذمہ داری سے بچنے اور تل ابیب کو تنقید کے مرکز میں لانے کی کوشش ہے۔
اگرچہ دوحہ پر حملوں کے بعد تل ابیب اور قطر کے تعلقات میں بظاہر بہتری آئی ہے، تاہم عدنان علامہ کے مطابق یہ تبدیلی قدرتی یا خودبخود نہیں ہے۔ ان کے بقول، نیویارک اجلاس زیادہ تر اس ناکام آپریشن کی وجوہات، غلطیوں اور انٹیلیجنس لیکس کا جائزہ لینے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔
آخر میں، لبنانی تجزیہ کار نے خبردار کیا کہ یہ معاملہ بظاہر نظر آنے سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع ہے، اور راکھ کے نیچے دبی ہوئی آگ موجود ہے، جسے میڈیا کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔


مشہور خبریں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن فلسطین محور گفتگو رہا
?️ 24 ستمبر 2025اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے پہلے دن فلسطین
ستمبر
کراچی پریس کلب کے باہر سول سوسائٹی کا سمی دین بلوچ کی رہائی کا مطالبہ
?️ 1 اپریل 2025کراچی: (سچ خبریں) عید الفطر کے پہلے روز کراچی پریس کلب کے
اپریل
حزب اللہ کا اسرائیل سے انتقام کیسا ہوگا؟لبنانی وزیر خارجہ کی زبانی
?️ 19 ستمبر 2024سچ خبریں: لبنان کے وزیر خارجہ عبدالله بوحبیب نے سی این این
ستمبر
افغانستان میں خواتین کے کام پر پابندی پر اقوام متحدہ کا ردعمل
?️ 27 دسمبر 2022سچ خبریں: اقوام متحدہ نے غیر سرکاری اور بین الاقوامی اداروں
دسمبر
الیکشن کمیشن نے نگران حکومت کو پی آئی اے کی نجکاری سے روک دیا
?️ 5 فروری 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے
فروری
ملک کے بڑے چور اکھٹے ہو کر مجھے بلیک میل کر رہے ہیں:عمران خان
?️ 30 جنوری 2021ملک کے بڑے چور اکھٹے ہو کر مجھے بلیک میل کر رہے
جنوری
مغربی ممالک روس کے ساتھ فوجی تصادم کے خواہاں نہیں
?️ 27 فروری 2024سچ خبریں:فرانس کے صدر نے ایک ملاقات میں اعلان کیا کہ مغربی
فروری
افغانستان کی دہشت گردی کے حوالے سے دوغلی پالیسی بے نقاب
?️ 22 ستمبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) افغان حکومت نے ایک طرف امریکا سے دوحہ
ستمبر