سچ خبریں:امریکی جیلوں میں قید تنہائی کو سماجی گروپوں اور ماہرین کے ردعمل کا سامنا ہے۔
ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ریاستہائے متحدہ میں 10 میں سے ایک سیاہ فام مرد 30 سال کی عمر سے پہلے کم از کم ایک بار قید تنہائی کا شکار ہوا ہےجبکہ دماغی تندرستی پر اس کے گہرے اثرات کی وجہ سے یہ اقوام متحدہ کی طرف سے تشدد کا ایک عمل ہے، نیو سائنٹسٹ کے مطابق قید تنہائی میں قیدی کو بغیر کسی انسانی رابطے کے دن میں 22 گھنٹے یا اس سے زیادہ کے لیے سیل میں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے جسے عام طور پر کال کوٹھری کہا جاتا ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس قسم کی حراست صرف غیر معمولی حالات میں اور مختصر مدت کے لیے استعمال کی جانی چاہیے کیونکہ اس کے اثرات 15 دن سے زیادہ کی سزا سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سزا قیدیوں میں اضطراب، نفسیاتی امراض اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا سبب بن سکتی ہے،یادرہے کہ جن لوگوں کو کچھ عرصے کے لیے قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے ان میں رہائی کے ایک سال کے اندر دوسرے رہائی پانے والے قیدیوں کے مقابلے میں 78 فیصد زیادہ خودکشی کرنے کا امکان ہوتا ہےجبکہ 127 فیصد زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اوپیئڈ کی بڑھ جانے سے مر جائیں جو پہلے 2 ہفتوں میں ہوتا ہے۔
نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی کی ہننا پولن بلاسنک اور ان کے ساتھیوں نے 2007 سے 2018 تک پنسلوانیا کی جیلوں کے انتظامی ریکارڈ کا تجزیہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ قید تنہائی کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے، اس تحقیق کے مطابق قید تنہائی کا استعمال صرف 12% مقدمات میں پرتشدد کاروائیوں کو سزا دینے کے لیے کیا گیا تھاجبکہ دوسری بار اس قسم کی قید زبانی دھمکیوں، اسمگل شدہ یا غیر قانونی سامان رکھنے، یا اس لیے کہ قیدی کو دوسروں یا اپنے لیے خطرہ سمجھےجانے پرسزا دینے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔