سچ خبریں:اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امداد OCHA نے کہا ہے کہ وہ اس سال افغانستان کو امداد کے لیے درکار چار ارب 600 ملین ڈالر میں سے پانچ فیصد فراہم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اگرچہ اوچا کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کو انسانی امداد کے لیے درکار بجٹ کا 95 فیصد فراہم نہیں کیا گیا، اس ملک کے شہریوں میں ان امداد کی ضرورت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ایک یونیورسٹی کی پروفیسربہمن یوسفی نے افغانستان کی صورتحال کے بارے میں کہا کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کا احترام نہ ہونے کی وجہ سے عالمی برادری اس ملک کی مدد کرنے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے اور افغانستان میں بھوک میں اضافے سے متعلق اعدادوشمار بتاتے ہیں۔ کہ یہ ملک خوراک کے معاملے میں بہت مشکل سال کا سامنا کر رہا ہے۔
بعض نے افغان میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ لیبر مارکیٹ کی کمی اور لگاتار خشک سالی کے باعث افغانستان کے لوگ بین الاقوامی برادری کی امداد پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں اس لیے اگر یہ امداد روک دی گئی تو ملک کو قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تاہم افغانستان کی وزارت اقتصادیات کے ترجمان عبدالرحمن حبیب نے کہا کہ اس ملک کے اقتصادی بحران سے نمٹنے کی توجہ افغانستان کی جی ڈی پی بڑھانے پر مرکوز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم غیر ملکی امداد پر انحصار نہیں کرتے۔ غیر ملکی امداد عارضی ہے اور معاشی مسئلے کا حل بھی نہیں۔ وزارت اقتصادیات اور دیگر تمام وزارتیں غربت کی سطح کو بتدریج کم کرنے کے لیے دوبارہ جی ڈی پی بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔