سچ خبریں: امریکی کانگریس کے ریپبلکن سنیٹر نے افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کو تباہی قرار دیا۔
امریکی کانگریس کے ریپبلکن سنیٹر لنڈسے گراہم نے افغانستان سے امریکی انخلاء کے دو سال پورے ہونے کے موقع پر سوشل میڈیا ایکس پر اپنے اکاؤنٹ پر افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کو ایک تباہی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج افغانستان سے بائیڈن انتظامیہ کے تباہ کن انخلاء کے دو سال پورے ہوئے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان ایسا کیا کرنے کا سوچ رہے ہیں کہ دنیا حیران رہ جائے
افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے گراہم نے مزید کہا کہ دو سال بعد طالبان خواتین پر ظلم کر رہے ہیں ،اس ملک میں دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہو چکی ہیں،افغانستان کو ایک بار پھر بنیاد پرست قوتوں کے امریکی مفادات کے خلاف حملوں کے لیے ایک اڈے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لنڈسے گراہم کے مطابق اس تباہ کن پسپائی نے دنیا بھر کی بنیاد پرست قوتوں کو کئی ممالک پر مسلط کیا، روس، چین اور ایران جیسے ممالک کے لیے امریکہ کے کمزور ہونے کو ثابت کیا اور دنیا بھر میں شدید عدم استحکام پیدا کیا ۔
گراہم کے مطابق افغانستان کی آج کی ساری صورتحال پر قابو پایا جا سکتا تھا امریکہ ہم وہاں سے نہ نکلتے۔
یاد رہے کہ تین روز قبل اقوام متحدہ کے ماہرین نے پیر کے روز افغانستان پر طالبان کی حکومت کی دوسال پورے ہونے کے موقع پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچنا غلط ہے کہ طالبان نے اصلاح کر لی ہے۔
اس بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں طالبان کی پالیسیوں کی وجہ سے افغان شہریوں کے تعلیم، کام اور آزادی کے حق سمیت کئی انسانی حقوق کی مسلسل اور چونکا دینے والی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ماورائے عدالت پھانسیوں اور جبری گمشدگیوں، وسیع پیمانے پر من مانی حراستوں، تشدد اور ناروا سلوک کے ساتھ ساتھ لوگوں کی من مانی نقل مکانی کی بعض اور مسلسل رپورٹوں نے خدشات کو پیدا کیے ہیں۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے کم از کم 30 ماہرین نے اس بیان پر دستخط کیے ہیں اور کہا ہے کہ طالبان کی پرتشدد پالیسی نے سب سے زیادہ نقصان خواتین اور لڑکیوں، نسلی اور مذہبی اقلیتوں، جسمانی اور ذہنی معذوری کے شکار افراد، بے گھر افراد، ایل جی بی ٹی افراد، انسانی حقوق کے محافظوں اور دیگر شہریوں کو پہنچایا ہے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امریکی میراث، طالبان کی زبانی
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں صحافی، فنکار، اساتذہ اور سابقہ دور حکومت کے سرکاری اور فوجی عہدیدار بھی طالبان کے مظالم کا شکار ہوئے ہیں۔
اس بیان میں خواتین کے کام اور تعلیم پر عارضی پابندیوں کے بارے میں طالبان حکام کے دعوؤں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس پالیسی کے جاری رہنے سے لوگوں بالخصوص افغان خواتین اور لڑکیوں کو بڑے پیمانے پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔