سچ خبریں:واضح رہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر اس سال عالمی یوم قدس 1979 سے پہلے کے تمام سالوں سے مختلف تھا۔
جب امام خمینی نے ماہ مقدس رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کا نام دیا تھا۔ امام خمینی کی طرف سے اس دن کو یوم قدس کے نام سے منسوب کرنے سے انقلاب کی فتح کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی کی نوعیت واضح ہوگئی اور تمام خطے اور دنیا کے لوگوں پر ثابت ہوگیا کہ فلسطین کی حمایت اوراس کا سبب صیہونی غاصبوں کی بے دخلی اور تباہی تک یہ ایران کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
فلسطینی کاز کے لیے ایران کی حمایت عرب خطے میں ایک مشکل اور خطرناک مرحلے میں انجام پائی۔ جہاں مصر صیہونی حکومت کے ساتھ تصادم کا میدان چھوڑ کر اس حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی خطے میں اپنا وجود قائم کرنے اور افریقی براعظم سمیت دیگر عرب خطوں میں گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ سوویت یونین جو نظریاتی طور پر صیہونیوں کا مخالف تھا، کمزور پڑ رہا تھا۔
ان تمام واقعات کی وجہ سے عرب خطہ اس دور میں امریکی صیہونی جارحیت کے خطرے سے دوچار ہوا۔ اس حد تک کہ بہت سی عرب حکومتیں جو ابتدا میں اسرائیلیوں کے قبضے کا مقابلہ کرنا اور انہیں فلسطین سے نکالنا چاہتی تھیں، رفتہ رفتہ خطے میں صیہونی حکومت کی قبولیت کی طرف بڑھ گئیں۔
اس لیے اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں فلسطینی کاز کا سب سے بڑا اور شاید واحد سنجیدہ حامی رہا اور اس لیے اسے بھاری قیمت چکانی پڑی۔ وہ بھی ایسی حالت میں جب بہت سے عرب فلسطین کو تنہا چھوڑ چکے تھے۔ تاہم، قبضے کا مقابلہ کرنا اور مسئلہ فلسطین کا دفاع ایران کی قانونی اور مقبولیت اور خارجہ پالیسی کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔ شاید شروع میں بعض لوگوں نے محسوس کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی حمایت کرکے خطے میں اپنی پوزیشن کو بتدریج کمزور کردے گا اور خطے کے اندر اور باہر سے اس کے خلاف آنے والے حملوں اور سازشوں کے مقابلے میں کھڑا نہیں ہو سکے گا۔
لیکن گزرتے وقت نے ظاہر کیا ہے کہ حقیقت ان تصورات کے برعکس ہے اور فلسطین اور اس کی قوم اور نظریات کے دفاع نے نہ صرف ایران کی علاقائی حیثیت کو نقصان پہنچایا بلکہ تمام عرب اور مسلم اقوام کے درمیان اسلامی جمہوریہ کی قانونی حیثیت کو بھی نقصان پہنچایا۔
تاہم اس سال یوم قدس کے جلوس کی اسٹریٹجک جہت اور اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ بڑا اجتماع مختلف بین الاقوامی اور علاقائی پیش رفتوں کے سائے میں منعقد کیا جا رہا ہے۔ جہاں یوکرین کی جنگ کے واقعات اور پھر علاقائی مساوات کی تبدیلی کے بعد ہم پورے خطے میں امریکہ کے اثر و رسوخ میں نمایاں کمی دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ خطے کے عرب ممالک بھی جو اس کے اہم اتحادی سمجھے جاتے تھے۔ امریکہ اس سے پہلے روس اور چین کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کر رہا ہے اور واشنگٹن کے حریفوں کے ساتھ اتحاد بنا رہا ہے۔