سچ خبریں: ایک عرصے سے عالم اسلام کا لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے ترکی نے ہمیشہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے مسئلہ فلسطین کی حمایت کا سہارا لیا ہے۔
واضح رہے کہ آنکارا کے تل ابیب کے ساتھ کسی بھی دوسرے اسلامی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ سیاسی اور تجارتی تعلقات ہیں۔
اس بنا پر ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے صیہونی حکومت کے ساتھ زبانی تنازعات کو جاری رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ ترکی لیبیا اور کاراباخ کی جنگوں کی طرح ہی اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے مقبوضہ علاقوں میں داخل ہو سکتا ہے۔
اردگان نے جنگ میں مداخلت کرنے اور تل ابیب کا مقابلہ کرنے کے اپنے دعوے کی وضاحت نہیں کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بہت مضبوط ہونا چاہیے تاکہ اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف ایسی مضحکہ خیز کارروائیاں نہ کر سکے۔ ہمیں اسرائیل کے خلاف وہی کارروائی کرنے کے قابل ہونا چاہیے جیسا کہ ہم نے کارابخ میں کیا، جیسا کہ ہم نے لیبیا میں کیا تھا۔
اردگان نے نشاندہی کی کہ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم ایسا نہ کر سکیں۔ ہمیں اس طرح کے قدم اٹھانے کے لیے مضبوط ہونا چاہیے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ یسرائیل کاٹز نے X سوشل نیٹ ورک پر اپنے ذاتی صفحے پر نیتن یاہو کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ اردگان اسرائیل کو دھمکی دینے میں صدام حسین کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں۔ یہ اچھا ہے کہ اسے یاد ہے کہ صدام کے ساتھ آخر کیا ہوا تھا۔