سچ خبریں:امریکہ اور مغربی ممالک نے سعودی عرب میں ہونے والے جرائم میں اضافے کو ہری جھنڈی دکھائی ہے۔
عربی21نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں کی آزادی اظہار رائے کے قیدیوں کے معاملے میں گزشتہ مہینوں میں غیر معمولی صورتحال دیکھنے میں آئی ہے، اس سلسلہ میں دہشت گردی کے مقدمات میں خصوصی فوجداری عدالت نے کئی سال قید کی سزائیں سنائیں جس نے اس ملک کے سماجی کارکنوں اور محافظوں کو متاثر کیا۔
جبکہ اپیل عدالتوں نے نظربندوں کی پچھلی سزاؤں کے سلسلہ میں بھی حیرت انگیز فیصلے سنائے جبکہ کچھ قیدی پہلے ہی برسوں کی قید کاٹی چکے تھے انہیں اب آزاد ہونا تھا تاہم اپیل کورٹ نے انہیں بھی چونکا دینے والی طویل قید کی سزائیں سنائیں۔
عرب ذرائع ابلاغ نے اس سال کے آغاز سے جولائی میں امریکی صدر جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب تک سابقہ سزاؤں کی منسوخی اور قید کی سزاؤں میں اضافے کے متعدد کیسز کی چھان بین کی ہے جن میں شیخ خالد الرشید کی قید کی سزا کو 15 سال سے بڑھا کر 23 سال کرنا بھی شامل ہے۔
تاہم، بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے اور جدہ کے سلام محل میں سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات کے بعد، متعدد مقدمات کے حوالے سے سعودی ججوں کے نقطہ نظر میں ایک غیر معمولی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے کیونکہ اپیل کورٹ نے سزا میں کمی کی درجنوں سزائیں منسوخ کر کے نئی سزائیں جاری کیں جن میں سے کچھ پچاس سال قید پر مبنی ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ڈان کے مطابق گزشتہ اپریل میں سعودی ججوں کی گرفتاری اور آل سعود کے زیادہ وفادار لوگوں کی تقرری اس طرح کی بے مثال سزائیں جاری کرنے کا ایک اہم عنصر تھا، تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ گزشتہ جولائی میں جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب نے سعودی ولی عہد کو قیدیوں کے خلاف مزید جارحانہ اقدامات اٹھانے کی ہری جھنڈی دی تھی۔