(سچ خبریں) افغانستان میں اگر امن ہوجائے تو امریکی مفادات خطرے میں پڑجائیں گے اور دنیا کے سامنے اس کے وہ جھوٹ بے نقاب ہوجائیں گے جنہیں وہ بار بار بولتا آیا ہے کہ افغانستان میں وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کررہا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ خود دہشت گردی کررہا ہے اور اسی ڈر سے وہ افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے 18مارچ 2021ء کو اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں قیام امن میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا ہے جو دوحہ معاہدے پر عمل کرنے بجائے اس سے مکمل طور پر انکار کرتے ہوئے اعلان کر رہا ہے کہ یکم مئی کو افغانستان سے امریکا اپنی افواج کو نکالنے کا پابند نہیں ہے۔
روسی وزیر خارجہ ماسکو میں افغان طالبان کے وفد کے استقبال کے بعد عالمی اخبارات اور ٹی وی کے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا ماسکو کانفرنس کا انعقاد افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے ہے لیکن امریکا کی افواج اگر یکم مئی کو افغانستان سے نہ نکلیں تو وہاں ایک بڑی جنگ کا خدشہ اور اس کی تمام تر ذمے داری صرف اور صر ف امریکا پر ہو گی اور روس، چین پاکستان افغان طالبان کے ساتھ ہوں گے۔
22 فروری 2021ء کو آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی جنگ کا پاکستان حصہ نہیں بنے گا اور پاکستان کی دوستی افغانستان میں صرف ان لوگوں سے ہوگی جو وہاں امن کے لیے کوشش کرے گا۔
پاکستان نے نام لے کر کہا تھاکہ پاکستان اشرف غنی، طالبان اور امریکا کا افغانستان میں جنگ کا ساتھی نہیں ہے، پاکستان سب کو امن کی میز پر بیٹھنے کی دعوت دیتا ہے اور قیام امن میں پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے، لیکن 17مارچ 2021ء کو بائیڈن نے ایک مرتبہ پھر یہی کہا ہے کہ امریکا یکم مئی کو افغانستان سے افواج کو نکالنے کا پابند نہیں ہے۔
روسی وزیر ِ خارجہ سرگئی لاوروف نے اسی کے جواب میں کہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا ہے۔ روسی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکا دوحہ معاہد ے کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اسی لیے روس کسی صورت امریکا نہیں بلکہ اس کے برعکس وہ افغان طالبان کے ساتھ ہے۔
23 فروری 2021ء کی اشاعت میں نیوز ویک نے خصوصی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے بائیڈن کو متنبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان سے جس قدر جلدی ہو نکل جائے، اور اب افغان طالبان جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور اس بار چین، روس اور پاکستان افغان طالبان کے ساتھ دامے درمے سخنے ساتھ ہوں گے اور آخر کار امریکا اپنی تباہی کے ساتھ افغانستان سے نکلے گا۔
ماسکو میں افغان امن کانفرنس کے شرکاء فریقین سے جنگ بندی اور تشدد میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن امریکا کی یہی کوشش ہے وہ کسی نہ کسی طرح افغان حکومت میں اپنی بھی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائے اور یہی بات امریکا کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔
روس کے دارالحکومت ماسکو میں ہونے والی افغان امن کانفرنس میں روس، امریکا، چین اور پاکستان نے افغان فریقین سے تشدد میں کمی، جنگ بندی اور امن کے اہم نکات پر فوری بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ کانفرنس میں ترکی اور قطر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی، کانفرنس کے جاری مشترکہ بیان میں طالبان اور افغان حکومتی و سیاسی نمائندوں سے بین الافغان مذاکرات میں اہم نکات، افغانستان میں تشدد روکنے، فوری جنگ بندی اور افغان سرزمین کسی اور ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
ماسکو حکومت بھی افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی خواہش مند ہے۔ تاہم اس خیال کو صدر اشرف غنی کی حکومت سختی سے مسترد کر چکی ہے۔ 15مارچ کو بھی انہوں نے ایک تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔
صدر ٹرمپ کے دورِ صدارت کے دوران افغانستان میں امن کے حوالے سے ہونے والے زیادہ تر مذاکرات کی میزبانی قطر کر رہا تھا۔ قطر میں افغان طالبان نے 2013 سے اپنا دفتر بھی قائم کر رکھا ہے۔ کابل حکومت سمیت کئی دیگر فریق امن مذاکرات مختلف ممالک میں کرانے کے مطالبے کرتے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں دنیا کے 8سے 10ممالک امن مذاکرات کی میزبانی کی پیشکش کر چکے ہیں لیکن ماسکو کانفرنس ابتدائی نوعیت کی کانفرنس ہے اور اصل مذاکرات اگلے ماہ ترکی میں ہونے والی کانفرنس میں ہوں گے۔
ان مذاکرات کی ایک اہم بات یہ سامنے آئی ہے کہ دوحہ مذاکرات میں امریکا اور طالبان ’اپنی مرضی کے قوانین لاگو‘ کر رہے تھے جب کہ نئی جگہ ہونے والے مذاکرات میں ایسی صورت نہیں ہو گی، جس سے ان مذاکرات پر اعتماد بھی بڑھے گا۔ ماسکو مذاکرات کے لیے افغان حکومتی وفد قریب قریب انہی افراد پر مبنی ہے جنہوں نے دوحہ مذاکرات میں کابل حکومت کی نمائندگی کی تھی، اس وفد کی سربراہی عبداللہ عبداللہ کریں گے۔
افغان طالبان کے وفد کی قیادت طالبان کے شریک بانی اور موجودہ نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کریں گے۔ لیکن ان کے ساتھ گلبدین حکمت یار بھی موجود ہیں امریکا کی جانب سے واشنگٹن کے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ماسکو میں ہیں جب کہ پاکستان اپنے ایک ریٹائرڈ سینئر سفارت کار محمد صادق کو ماسکو بھیجے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن بظاہر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے حق میں ہیں لیکن ان کی انتظامیہ مزید وقت چاہتی ہے، تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہے اور اس تاریخ پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جائے گا، امریکا میں یہ بھی تجزیہ کیا جارہا ہے کہ امریکی زمینی افواج تو واپس بلا لی جائیں لیکن افغان سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے عسکری مشیر افغانستان میں موجود رہیں گے۔
جنوری 2021ء میں سابق امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو دوحہ میں افغان انٹرا مذاکرات کرانے میں کامیاب ہوئے عین اسی وقت بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دووال نے افغانستان کا دورہ کیا اور اس دورے کو نئی دہلی میں انتہائی رازداری میں رکھا گیا تھا اور افغانستان کے صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک مختصر بیان کے بعد اس کا پتا چلا تھا۔ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت دووال نے افغان اعلیٰ مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور اپنے ہم منصب حمد اللہ محب کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔
بھارت بظاہر یہ کہتا رہا ہے کہ افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت کے قیام کا فیصلہ افغان عوام کا حق ہے، نئی دہلی کا تاہم الزام ہے کہ پاکستان اس میں رخنہ ڈالنے اور بھارت اور افغانستان کے رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کی بھی کوششیں کرتا رہتا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت کو ماسکو کانفرنس میں نہیں بلایا گیا۔ صدر ٹرمپ نے تو واضح طور پر کہا تھا کہ وہ افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلالیں گے لیکن بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا صورت کی تبدیلی نے بھارت اور افغانستان دونوں ہی غور کر رہے ہیں۔
لیکن روس، چین، پاکستان اور افغان طالبان کو یہ بات اچھی طرح معلوم کہ بھارت اور امریکا دونوں ہی افغانستان میں امن کے خلاف اور چین پاکستان اور روس کے دشمن بنتے جلارہے ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ افغانستان میں بد امنی کو فروغ دیں گے۔