(سچ خبریں) دہشت گرد ریاست اسرائیل کے نئے وزیراعظم آج کل امریکہ کے دورے پر ہیں، وزیراعظم کی حیثیت سے یہ ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے، نفتالی بینیٹ نے نیتن یاہو کی جگہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے اور انہوں نے اسرائیل کے ماضی کے وزراء اعظم کی طرح امریکہ کو اپنا آقا قرار دیتے ہوئے دورے سے پہلے گورین ہوائی اڈے پر جن خیالات کا اظہار کیا، اس سے نئے اسرائیلی وزیراعظم اور ان کی ٹیم کے دورہ امریکہ کے اہداف واضح اور روشن ہوگئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع سمیت بعض اعلیٰ حکام سے ان کی ملاقاتیں ہوچکی ہیں، ان ملاقاتوں میں حسب توقع ایران کا موضوع سرفہرست رہا، البتہ دورے سے پہلے نفتالی بنٹ نے یہ کہا تھا کہ اسرائیل ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ نیز اس کے ایٹمی پروگرام میں اپنے خدشات اور تشویش امریکہ تک ضرور پہنچائے گا، تاکہ ایران کا راستہ روکا جاسکے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے امریکی وزیر خارجہ کو تو کھل کر کہا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق جنیوا مذاکرات کو امریکہ اس طرح مینج کرے کہ ایران ایٹمی معاہدے سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔
باوثوق ذرائع کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نے پہلے مرحلے میں تو مذاکرات کے بائیکات اور امریکہ کو ان مذاکرات سے باہر رہنے کا مشورہ دیا، لیکن اگر امریکہ کی مجبوری ہے تو اسرائیل معاہدہ میں تبدیلی اور اس میں دیگر موضوعات کو اضافہ کرنے کی تجویز دیتا ہے۔ اسرائیل ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو عرصے سے متنازعہ بناتا چلا آرہا ہے اور سابق صیہونی وزیراعظم نیتن یاہو بھی مختلف عالمی اداروں میں جھوٹے اور خود ساختہ نقشوں اور تصاویر سے عالمی اداروں کو ایران کے خلاف اکسانے میں معروف تھے۔
جنیوا میں ایران اور چار جمع ایک ممالک کے درمیان مذاکرات کے چھ طویل دور انجام پاچکے ہیں، جس میں امریکہ بھی بلواسطہ شریک رہا ہے، لیکن وہ ابھی تک باقاعدہ طور پر معاہدہ میں واپس نہیں آیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنے دورہ امریکہ میں امریکی حکام کو معاہدہ میں واپس آنے سے روکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی ہے۔ صیہونی وزیراعظم ایسے عالم میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان میں ہنگامی فوجی انخلاء کی وجہ سے سخت ہزیمت کا سامنا ہے۔ کابل ائیرپورٹ پر چھ ہزار امریکی فوجیوں کی موجودگی میں دہشت گردانہ حملے نے امریکہ کی بچی کھچی ساکھ کو بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ افغانستان میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ جو رویہ اپنا رکھا ہے، اس نے غاصب اسرائیل سمیت تمام امریکی اتحادیوں کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔
صیہونی حکومت کو دی جانے والی امریکی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن افغانستان میں امریکی اتحادیوں کو جس صورت حال کا سامنا ہے، اس نے امریکی اداروں سمیت تمام اتحادیوں کے مورال کو صفر تک پہنچا دیا ہے۔ صیہونی وزیراعظم کو غزہ کی تازہ صورت حال کے تناظر میں بھی عالمی برادری کے دباؤ کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ صیہونی ریاست کے خلاف عالمی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی تناظر میں صیہونی وزیراعظم کے دورہ امریکہ کے موقع پر وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے۔ القدس العربی کی رپورٹ کے مطابق صیہونی وزیراعظم نفتالی بنٹ کے دورہ امریکہ کے موقع پر ان کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے۔ مظاہرین نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہو کر صیہونی وزیراعظم کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ بائیڈن، ایک اپرتھائیڈ و متعصب و نسل پرست حکومت کی کھل کر حمایت کر رہے ہیں۔ امریکی مظاہرین کا کہنا تھا کہ نفتالی بنٹ کا یہ دورہ امن کے لئے نہیں انجام پایا ہے بلکہ اس کا مقصد فلسطین اور ملت فلسطین کی قیمت پر صیہونی حکومت کو توسیع دینا ہے۔ مظاہرین نے صیہونی حکومت پر پابندی عائد کرنے اور اس غاصب حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کا نسلی صفایا روکنے کا مطالبہ کیا۔
بہرحال صیہونی وزیراعظم نفتالی بنٹ جو اس وقت امریکہ کے دورے پر ہیں، امریکی صدر بائیڈن سے ملاقات کرنے والے تھے، لیکن کابل ایئرپورٹ پر دھماکے کے باعث ان کی ملاقات ملتوی کر دی گئی ہے۔ صیہونی وزیراعظم کی جو بائیڈن سے ملاقات ایسے ماحول میں ہو رہی ہے کہ کابل دھماکے میں متعدد امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے اتحادیوں میں اسرائیل کا نام ابھی تک کھل کر سامنے نہیں آیا تھا، لیکن "دنیا نیوز” نے ایک رپورٹ شائع کرکے افغانستان کے خلاف امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ کو برملا کر دیا ہے۔ آرٹیکل کا اختتام اس رپورٹ کے اقتباس سے کرتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکی فوج انخلاء کے بعد افغانستان سے شہریوں کو نکال رہی ہے تو اسی وقت ایک رپورٹ نے سب کو ششدر کر دیا ہے، اسرائیلی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ افغانستان میں امریکی قیادت میں اتحادی افواج نے 20 سال کے دوران طالبان کے خلاف اپنی جنگ میں کئی اسرائیلی ساختہ ہتھیار استعمال کیے ہیں۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیل نے کبھی بھی افغانستان میں افواج کو زمین پر تعینات کرنے کا اعلان نہیں کیا، لیکن افغان جنگ میں براہ راست حصہ لینے والے ممالک خاص طور پر برطانیہ، جرمنی، کینیڈا اور آسٹریلیا نے اسرائیلی ساختہ جنگی ہتھیار استعمال کیے۔ اگرچہ اسرائیلی فوج کے افغانستان میں کسی جنگی مشن میں حصہ لینے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، مگر ذرائع سے یہ پتہ چلا ہے کہ اسرائیلی فوجی دستے کچھ عرصے کے لیے انٹیلی جنس معلومات اکٹھی کرنے کے لیے افغانستان میں تعینات رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسرائیلی دفاعی کمپنیاں گذشتہ برسوں کے دوران افغانستان میں اپنی مصنوعات کے استعمال کے بارے میں خاموش رہی ہیں۔
اسرائیل نے افغانستان میں غیر ملکی افواج کو جو ہتھیار سپلائی کیے ہیں، ان میں اسرائیلی ساختہ سپائیک میزائل کے علاوہ انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے لیے ڈرون بھی شامل تھے۔ اس فہرست میں ہلکی فوجی ٹیکٹیکل گاڑیاں (MRAP) بھی شامل ہیں، جو کہ اسرائیلی ساختہ اور اور بارودی سرنگوں سے بچنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان گاڑیوں نے اتحادی افواج کو زیادہ کثافت والے علاقوں میں محفوظ طریقے سے چلنے میں مدد فراہم کی تھی۔