سچ خبریں: طوفان الاقصی آپریشن نے صیہونی ریاست کو مختلف سیاسی، عسکری، سکیورٹی اور انٹیلیجنس محاذوں پر شدید نقصانات پہنچائے ہیں۔
طوفان الاقصی آپریشن کی گذشتہ ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس آپریشن نے صیہونی ریاست کو مختلف سیاسی، عسکری، سکیورٹی اور انٹیلیجنس محاذوں پر شدید نقصانات پہنچائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: الاقصیٰ طوفان سے صیہونی حکومت کو اربوں کا نقصان
جیسا کہ آیت اللہ خامنہ ای نے بیان کیا کہ جب ظلم اور بربریت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، تو طوفان کا انتظار کرنا چاہیے،طوفان الاقصی اسی ظلم و ستم کے خلاف ایک ردعمل تھا اور یہ حقیقت میں صیہونیوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ تھا۔
ایک سال گزر چکا ہے جب یہ تاریخی واقعہ پیش آیا جس نے دنیا کو اس سے پہلے اور اس کے بعد میں تقسیم کر دیا، آج، غزہ میں 41 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، لیکن پھر بھی غزہ کے بہت سے فلسطینیوں کا ماننا ہے کہ اس آپریشن کو انجام دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔
فلسطینی پالیسی اور پولنگ ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق، غزہ کے دو تہائی فلسطینی اس آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، 7 اکتوبر کے اس دن کے کچھ مثبت نتائج بھی تھے۔
1. شکست نہ کھانے والی افسانوی طاقت چکنا چور
طوفان الاقصی آپریشن کی سب سے اہم کامیابی یہ تھی کہ اس نے صیہونی ریاست کی دیرینہ تصویر، جو ناقابل شکست اور نفوذناپذیر ہونے کی تھی، کو توڑ دیا۔
اس واقعے نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل اب مزاحمتی گروپوں جیسے حماس اور حزب اللہ کے حملوں کی نہ تو پیشگوئی کر سکتا ہے اور نہ ہی مناسب طور پر ان کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ خطے میں قست مدافعت کی اکائی آخرکار بدل گئی اور اس کا تسلسل "وعدہ صادق 1 اور 2” کے آپریشنز میں دیکھا گیا۔
پہلے کے مختصر فوجی تصادم کے بجائے، اب ایک طویل المدتی عسکری حکمت عملی اپنانا ضروری ہو چکا ہے۔
2. اراضیِ مقبوضہ میں وسیع ناامنی
دوسرا اہم نتیجہ یہ تھا کہ مقبوضہ علاقوں میں وسیع پیمانے پر ناامنی پھیل گئی، پہلے سب سے زیادہ خوف شمالی مقبوضہ علاقوں اور غیر قانونی یہودی بستیوں میں محسوس کیا جا رہا تھا، لیکن آج خوف نے تل ابیب اور حیفا کے رہائشیوں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
اسرائیل نے شمالی مقبوضہ علاقوں کے رہائشیوں کو، جو جنگ کی وحشت سے فرار ہو گئے تھے، واپس لانے کی کوشش کی، لیکن اب کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے۔
جنگ کے ابتدائی چھ مہینوں میں 550000 سے زائد اسرائیلی مقبوضہ علاقوں سے فرار کر چکے ہیں، جس سے اسرائیل سے ہجرت میں 285 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ، امیر اسرائیلی باشندوں اور سرمایہ کاروں کے انخلا نے اسرائیل کو پہلی بار ان ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا ہے جو امیر مہاجرین کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔
3. فلسطینی مزاحمت اور قومی ہمبستگی کا احیاء
تیسرا اہم نتیجہ یہ ہے کہ اس آپریشن نے فلسطینی عوام کی قومی شناخت کو مضبوط کیا اور ان کے درمیان ہمبستگی میں اضافہ کیا۔
"طوفان الاقصی” نے ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت اب بھی زندہ ہے اور صیہونی ریاست کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ آپریشن فلسطینیوں کی جدوجہد کا ایک اہم سنگ میل ہے، جس نے نہ صرف صیہونی ریاست کو عسکری محاذ پر چیلنج کیا بلکہ فلسطینی عوام کو یکجا کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔
آپریشن "طوفان الاقصی” کے چوتھے مثبت پہلو کے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ اس آپریشن نے اسرائیل کی سیکیورٹی اور عسکری معادلات کو تبدیل کر دیا۔
فلسطینی مزاحمت نے اسرائیلی حدود میں داخل ہو کر صیہونی بستیوں پر حملہ کیا، جس نے ثابت کیا کہ فلسطینی مزاحمت اسرائیل کی گہرائی تک نفوذ کرنے اور اس کی سیکیورٹی کو چیلنج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پانچواں اہم پہلو یہ تھا کہ "طوفان الاقصی” نے عالمی رائے عامہ کی توجہ دوبارہ مسئلہ فلسطین کی طرف مبذول کر دی، اس آپریشن نے فلسطینی عوام کی حالت زار اور اسرائیلی جرائم کو دوبارہ عالمی خبروں کا مرکز بنا دیا۔
نیویارک سے لے کر لندن تک لاکھوں افراد کی شرکت کے ساتھ ہونے والے احتجاجات اس عالمی بیداری کی علامت ہیں۔
یونیورسٹی کوئنیپیاک کی نئی رائے شماری کے مطابق، 18 سے 34 سال کی عمر کے 52 فیصد امریکی نوجوان فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں، جو کہ اکتوبر کے مقابلے میں ایک نمایاں تبدیلی ہے۔
اسی طرح، 66 فیصد امریکی نوجوان اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے سخت مخالف ہیں۔
عرب دنیا میں کیے گئے ایک نئے سروے کے مطابق، 89 فیصد عرب ممالک کے جواب دہندگان اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالف ہیں۔
یہ نہ صرف عرب دنیا میں اسرائیل کے خلاف تقریباً متفقہ موقف کی عکاسی کرتا ہے بلکہ 2022 کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ مخالفت کو ظاہر کرتا ہے، جب 84 فیصد لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالف تھے۔ برطانیہ میں یوگاو کے ایک سروے میں، تقریباً 50 فیصد شہریوں نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات کی معطلی کی حمایت کی۔
صیہونی معیشت کو شدید نقصان
یہ تمام اثرات کے علاوہ، اسرائیل کی معیشت کو بھی "طوفان الاقصی” کے بعد شدید نقصان پہنچا۔ گیدعون گِلبرٹ، بندرگاہ ایلات کے ڈائریکٹر، کے مطابق، گزشتہ 8 مہینوں میں ایلات بندرگاہ میں کوئی سرگرمی یا آمدنی نہیں رہی، اور یمنی فورسز کے حملوں نے بحیرہ احمر میں بحری جہازوں کی آمد و رفت کو 85 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ 8.1 فیصد یا 41 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو پیشگوئیوں سے دوگنا ہے۔
غزہ کی جنگ نے اسرائیل کو تقریباً 63 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا، اور اسرائیل میں افراط زر کی شرح 7 اکتوبر کے بعد سے اپنی بلند ترین سطح یعنی 3.6 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
سال 2024 میں اسرائیل میں کاروبار کی بندش کی تعداد 60 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، اور سامسنگ نیکسٹ نے اپنا اسرائیلی دفتر بند کر دیا، جبکہ 40 ہزار سے زائد ملازمتوں کی سرگرمیاں ختم ہو چکی ہیں۔
"طوفان الاقصی” آپریشن نے اسرائیل کی سیاسی، عسکری، سیکیورٹی، اور سفارتی محاذوں پر شدید نقصانات پہنچائے ہیں، جس سے صیہونی ریاست کی استحکام کی تصویر کو توڑ دیا گیا ہے۔
عرب-بحیرہ روم اقتصادی راہداری کا تعطل
ہندوستان، خلیجی ممالک، اور یورپ کے درمیان ایک اقتصادی راہداری (آئی ایم ای سی) کو اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جنگی مہموں نے بری طرح متاثر کیا ہے۔
اس منصوبے کا مقصد ایشیا، خلیج فارس، اور یورپ کے درمیان معاشی ترقی اور یکجہتی کو فروغ دینا تھا، لیکن غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے اس منصوبے کو بڑی حد تک تعطل کا شکار کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ، کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ ہندوستان کے چین کے خلاف اقتصادی اور اسٹریٹجک عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے، جس کی وجہ سے کچھ بڑے ہندوستانی سرمایہ کاروں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔
تعلقات معمول پر لانے ککے منصوبے کی ناکامی
طوفان الاقصینے اسرائیل اور کچھ عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے منصوبوں کو بھی شدید دھچکا پہنچایا ہے،ابرائیم معاہدےکے تحت فروغ دیا جا رہا تھا۔
اٹلانٹک کونسل کے صدر کے مطابق، اس منصوبے کی کامیابی کے امکانات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس جنگ نے عرب دنیا میں عوامی رائے کو بدل دیا ہے، اور حتیٰ کہ اسرائیل کے حامی افراد بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
مثال کے طور پر، مصر کے معروف دانشور اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے حامی *ڈاکٹر اسامہ الغزالی* نے غزہ کے شہداء اور مصری عوام سے معافی مانگی اور اسرائیلی رویے کو نفرت انگیز اور نسل پرست قرار دیا۔
عرب دنیا میں اسرائیل کی مخالفت
عرب دنیا میں کیے گئے ایک حالیہ سروے کے مطابق، 90 فیصد سے زائد عرب ممالک کے عوام اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مخالف ہیں۔
یہ سروے 14 عرب ممالک میں کیا گیا، جس میں خاص طور پر اردن، عراق، قطر، لبنان، اور مصر کے عوام کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی شدید مخالفت ظاہر ہوئی ہے۔
اسرائیلی عوام میں حکومتی نارضایتی
"طوفان الاقصی” کے بعد اسرائیلی عوام میں حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی نارضایتی ایک اور اہم نتیجہ ہے۔
مزید پڑھیں: طوفان الاقصی صیہونیوں کے لیے کیسا رہا؟ حماس کے ترجمان کی زبانی
اسرائیلی چینل 12 کے ایک سروے کے مطابق، اکثریت اسرائیلی عوام وزیر اعظم نتن یاہو کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس سروے کے مطابق، 44 فیصد اسرائیلی فوری استعفیٰ کے حامی ہیں، جبکہ 28 فیصد جنگ کے بعد استعفیٰ چاہتے ہیں۔
اقتصادی نقصانات
"طوفان الاقصی” نے اسرائیلی معیشت پر بھی شدید اثرات مرتب کیے ہیں۔ بندرگاہ ایلات کی بندش اور بحیرہ احمر میں یمنی حملوں کی وجہ سے بحری جہازوں کی آمدورفت میں 85 فیصد کمی آئی ہے۔ اسرائیل کا بجٹ خسارہ 8.1 فیصد تک بڑھ چکا ہے، جبکہ غزہ کی جنگ کے اخراجات تقریباً 63 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
مجموعی صورتحال
آج اسرائیل کے لیے عالمی حمایت، خاص طور پر مغربی اور عرب ممالک کے رہنماؤں کی سطح پر، برقرار ہے، لیکن یہ حمایت اب بلا قیمت نہیں رہی۔ امریکہ کے آئندہ انتخابات میں غزہ کی جنگ ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے، اور اسرائیل کی برسوں سے کی جانے والی پبلک ڈپلومیسی کی کوششیں بے اثر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ "طوفان الاقصی” نے اسرائیل کو ایک ایسے مقام پر واپس پہنچا دیا ہے جہاں وہ اپنی بقاء کے لیے دوبارہ جدوجہد کر رہا ہے۔