صدی کی ڈیل اور ضمیر فروش عرب حکمرانوں کی خیانت

صدی کی ڈیل اور ضمیر فروش عرب حکمرانوں کی خیانت

🗓️

(سچ خبریں) مشرقی وسطیٰ میں کافی تبدیلی آچکی ہے اسرائیل نے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعہ ضمیر فروش اعراب کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرلئے ہیں یہ وہ عرب ملک ہیں جنہوں نے 1948 میں اس کے غاصبانہ قیام کے بعد اسے تسلیم نہیں کیا تھا مگر حب  آج اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی دوڑ میں عرب ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اگرچہ جس خطرے کی وجہ سے اسرائیل جیسے خونخوار بھیڑیئے سے تعلقات بنائے جارہے ہیں وہ خطرہ صرف ان کی بددماغی کی کمزوری ہے ورنہ ایران نے کبھی کسی ملک کے ساتھ دشمنی نہیں کی ہے البتہ یہ بھی ایک حسن ظن ہے ورنہ درحقیقت یہ اعراب امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں کٹھ پتلی ہیں جو ایران کی اہمیت اور پیش قدمی کو روکنے کی سعی لاحاصل کررہے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب ایران کے بعد ایران نے سوائے دوستی کے کسی ملک سے دشمنی کا اظہار نہیں کیا ہے اگرچہ اعراب کی طرف سے ہمیشہ ایران مشکلات سے دوچار رہاہے۔
امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ نے 2020 میں ایک بظاہر امن تجویز پیش کی جسے دنیا بھر کے تمام آزاد منش حکومتوں نے مسترد کردیا اگرچہ یہ ممالک کم ہی تھے، ایک امریکی مصنف پیٹربینارٹ نے نیویارک ٹائم میں ایک مقالہ لکھا جس میں وہ کہتاہے کہ’ اب وقت آگیاہے کہ دوملکوں کے درمیان یعنی یہودی اور فلسطینی کے مساوی حقوق پر توجہ دی جائے، یہ کوئی نئی تجویز نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس قسم کی تجاویز سامنے آئیں تھیں۔

1948 میں حنا ارینڈ نے فلسطین کی تقسیم کے بجائے یہودی، عرب اور دیگر اقلیتوں کے اتحاد کے ساتھ دو قومیتوں والے ملک کا نظریہ پیش کیا۔ایک اسرائیل مصنف اوری ایوینری نے2013 میں اور ایک یہودی نژاد برطانوی رایٹر ٹونی جڈ نے بھی اس قسم کا نظریہ پیش کیاتھا۔

گذشتہ چند سالوں سے فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنے کی متعدد سازشیں ہورہی ہیں ان میں اہم ترین سازش ٹرمپ کا امن معاہدہ ہے۔ ہم اس امن معاہدہ کی جزئیات پر بحث بعد میں کرلے گیں پہلے یہ واضح کردیں کہ یہ امن معاہدہ درحقیقت غلط ہے اس لئے کہ معاہدہ کی بات وہاں ہوتی ہے جہاں برابر کے حقوق ہوں ۔یہاں تو اسرائیل طاقت کے زور پر فلسطین میں آکر قابض ہواہے۔

یہاں حقوق فلسطین پر بات ہونی چاہئے اور اسرائیل کے اخراج کی، نا یہ کہ دونوں کو برابر کا حق دیاجائے۔ یہ تو وہی بات ہے کہ ایک انسان پہلے چوری کرلے پھر کہے کہ آؤ دونوں برابر برابر حصہ بانٹ لیں یہ کہاں کی عقلمندی ہے، جس کا مال چوری کیا گیاہے اس کا سارا مال واپس کیا جانا چاہئے اور چور کو سزا دینی چاہئے یہی عقلی قانونی اور اخلاقی اصل ہے، یہاں اسرائیل غاصب ہے اسے سزا ہونی چاہئے اور فلسطین سے اس کا اخراج ۔مگر کیاکیا جائے کہ حقوق انسانی کے علمبردار ہی اسرائیل کو فلسطین میں اس کا ناجائز حق دینے پر مصر ہے۔

امریکی سابق صدر نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے بہانے ایک منصوبہ پیش کیاہے جس میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے کا بھی اشارہ دیا گیاہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ فلسطینیوں کے ریاست کے قیام کی بات اس معاہدے میں کی جارہی ہے جبکہ وہ ان کا ہی ملک ہے اس سے بڑی نا انصافی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس کا گھر ہے اسی پر احسان کیاجارہاہے کہ تم اپنا گھر بنالو۔
اس معاہدے کے اہم نکات
1. جن علاقوں کو ٹرمپ نے اسرائیلی علاقہ تسلیم کیاہے ان میں امریکہ اسرائیل کی مکمل خود مختاری تسلیم کرلے گا۔
2. ان کے اس امن معاہدے سے فلسطینی علاقہ دوگنا ہوجائے گا اور یروشلم دارالحکومت بن جائے گا جہاں امریکہ اپنا سفارت خانہ (فساد کا اڈہ) کھولے گا۔ اگر اس پر تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے غور کیاجائے تو دو گنا توبہت زیادہ ہے گھٹ کر فلسطینیوں کو15 فیصد سے کم علاقے میں جگہ ملے گی جس کا اعتراف خود استعمار کے بعض افراد نے کیاہے۔
3.  اس معاہدے کے تحت یروشلم اسرائیل کا غیرمشروط اورغیرمستقیم دارالحکومت ہوگا۔
4.  اس معاہدے کے اعتبار سے فلسطینی اوراسرائیل کو اپنے گھروں اور زمینوں سے بے دخل نہیں کیاجائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی قوانین کے تحت غیرقانونی طور پر جو اسرائیل نے مغربی کنارے پر بستی بنائی تھی اس سے انہیں بے دخل نہیں کیاجائے گا۔
5.  اسرائیل اردن کے بادشاہ کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنائے گا کہ یروشلم کے مقدس مقامات جیسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ اور مسلمان الحرم الشریف کہتے ہیں ،ان مقدس مقامات کی انتظامیہ کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔
6. فلسطین کو فوج اور فوجی ساز وسامان اسلحے وغیرہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی صر ف ہلکے اور چھوٹے اسلحے جو پولیس کیلئے ہوتے ہیں۔
7. فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ ہوگا جس میں طے ہوگا کہ فلسطین پر ہونے والے حملے کا دفاع اسرائیل کرے گا اس شرط کے ساتھ کہ فلسطین اسرائیل کو اس دفاع کے عوض مکمل خرچہ دے گا۔
8. حماس معاہدے کے تحت اپنے تمام اسلحے ختم کر دے گا اس میں شخصی حفاظتی اسلحے بھی شامل ہونگے اور یہ تمام اسلحے مصر کو تحویل میں دیئے جائیں گے۔
9. یہودی نشین علاقوں کو خالی نہیں کیاجائے گا بلکہ اس میں توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
10. صحرائے اردن اسرائیلیوں کے قبضے میں رہے گا جیسا کہ اس وقت بھی انہیں کے قبضے میں ہے۔
11. اگر حماس یا جنبش اسلامی وغیرہ نے اس معاہدے کی مخالفت کی تو ان کی تمام امداد بند کردی جائے گی اور مجازات(سزا) کا بھی امکان ہوگا۔
12. بری، بحری، فضائی اختیارات اسرائیل کے پاس رہیںگے، فلسطین بارڈر پر اسرائیل فوج کا قبضہ ہوگا۔
یہ وہ نکات ہیں جو معاملہ قرن یا معاہدہ قرن میں ذکر کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اقتصادی مسائل کو بھی زیربحث لایاگیاہے مگر ہم یہاں اسے ذکر نہیں کررہے ہیں۔ان مذکورہ نکات کو دیکھنے کے بعد کون عقلمند اور انصاف پسند انسان اسے قبول کرلے گا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بہت واضح ہے مگر کچھ خائن اور اپنی کرسی کی حفاظت کیلئے مسلمان نما اعراب اسے قبول کرنے کو تیار ہی نہیں بلکہ فلسطین پر دباؤ بنارہے ہیں کہ اسے قبول کریں۔ جب کہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا مگر انہیں نہ اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ فلسطینیوں سے کوئی ہمدردی۔ وہ تو بس اپنی حکومت، اپنی عیاشی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔اگر ان کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ وہ مسلمان ہیں جو یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہیں، ہمیشہ اسلام کی پیٹھ پر خنجر ماراہے ۔یہ بنام اسلام حکومت کررہے ہیں ورنہ درحقیقت یہ یہودی زادے ہیں جن کا سارا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور ان کی حمایت کرنا ہے۔
اس معاہدہ کو د یکھنے کے بعد یوں تو بہت سے نتائج سامنے آتے ہیں ہم یہاں چند اہم اور کلیدی نتائج کا ذکر کررہے ہیں۔
1. یہودی غاصب حکومت کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔
2. فلسطین قانونی طور پر اسے تسلیم کرلے۔
3. قدس یہودیوں کا پایۂ تخت ہوگا اور فلسطین قدس کے اطراف میں واقع ایک شہر ابودیس کو اپنا پایۂ تخت بنائیں۔
4. فلسطین حکومت مستقل نہیں ہوگی نہ ان کی اپنی فوج ہوگی۔
5. آوارہ وطن فلسطینیوں کو واپسی کا حق نہیں ہوگا۔
6. انقلاب یا قیام کے حق کو سلب کرلیاجائے گا اور اگر کوئی اس قسم کا اقدام کرے گا تو وہ دہشت گردی کہلائے گی اور ان کے ساتھ قانونی برخورد کی جائے گی۔
7. فلسطین کو اقوام متحدہ کی عضویت سے خارج کردیاجائے گا اور اس کی جگہ اسرائیل کو تمام اختیارات دیئے جائیں گے۔
8. 1948 میں جو فلسطینی آراضی تھی اس سے انہیں بے دخل کرکے صحرا وغیرہ میں انہیں جگہ دی جائے گی تاکہ وہ اپنی نئی بستیاں بسائیں جس کا بجٹ بھی طے ہواہے۔
9. عرب ممالک قانونی طور پر اسرائیل کو تسلیم کریں۔
10. اس معاہدے کے تحت اسرائیل آہستہ آہستہ پورے فلسطین پر قابض ہوجائے گا۔
ان نتائج کو دیکھنے کے بعد واضح ہوجاتاہے کہ امریکہ واسرائیل کا اصل ہدف کیاہے وہ فلسطین کو صفحۂ تاریخ سے محو کرنے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ نام نہاد اسلامی ملک بھی ہیں جو اس معاہدے کی حمایت کررہے ہیں جب کہ یہ معاہدہ اسرائیل کے ہر مطالبے پر’ص ‘بنارہاہے۔ اس معاہدے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ہر اس کوشش کو ناکام کردیاہے جو فلسطینیوں کے حق میں وہ انجام دینا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے بعد اسرائیل بیت المقدس پر مکمل طور پر قابض ہوجائے گا اور آدھے سے زیادہ فلسطین کی آراضی اس کے قبضے میں ہوگی اس معاہدے کے بعد فلسطین کو اپنے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں سے فلسطین کی انقلابی تاریخ کو ختم کرنا ہوگا تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں تک قیام وانقلاب کی بات ہی نہ منتقل ہو، کتنی بڑی سازش ہے یہ معاہدہ قرن اس کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے اگر انسان چشمِ بینا رکھتاہے۔

مشہور خبریں۔

ہم یورپ کو ایشیائی گیس نہیں دیں گے: قطر

🗓️ 19 اکتوبر 2022سچ خبریں:    سعد الکعبی وزیر توانائی اور قطر کی انرجی کمپنی

مہلک مشنوں پر جانے والی خطرناک خواتین

🗓️ 7 فروری 2021سچ خبریں:ایک صہیونی میڈیا نے طویل عرصے سے دہشت گردی کی کاروائیوں

غزہ میں وحشیانہ بمباری کے باوجود اسرائیل کو ذلت آمیز شکست ہو رہی ہے: اسرائیلی اخبار

🗓️ 17 مئی 2021تل ابیب (سچ خبریں) دہشت گرد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر

زیادہ ترفرانسیسی میکرون کے پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کے خالف 

🗓️ 25 اپریل 2022سچ خبریں:  ایک نئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 60 فیصد

غزہ کی پٹی میں صیہونی بربریت کے بارے میں اردن کا موقف

🗓️ 23 فروری 2024سچ خبریں: اردن کے وزیر خارجہ نے صیہونی حکومت کے جرائم کی

کیا ٹرمپ یوکرین کے بحران کو 24 گھنٹوں میں حل کر سکتے ہیں؟

🗓️ 18 نومبر 2024سچ خبریں:امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے

اسرائیلی عوام بھی حزب اللہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے:صیہونی اخبار

🗓️ 7 اگست 2021سچ خبریں:ایک صہیونی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیلی

مغربی کنارہ صیہونیوں کے لیے جہنم بننے والا ہے:فلسطینی مجاہدین

🗓️ 26 فروری 2023سچ خبریں:فلسطینی مزاحمتی گروپ عرین الاسود نے اعلان کیا کہ مغربی کنارے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے