(سچ خبریں) چین کے خلاف امریکا اور بھارت کی کوویڈ ڈپلومیسی شروع کرنے کا فیصلہ کواڈ کی ورچوئل کانفرنس میں کر لیا گیا، اجلاس میں امریکا کے صدر جوبائیڈن، نائب صدر کملا ہیرس اور میزبانی بھارت کر رہا تھا۔
ورچوئل کانفرنس میں سب سے اہم فیصلہ یہ کیا گیا کہ چین کے خلاف دنیا بھر کے ممالک کو کورونا ویکسین مفت دی جائے گی جس کی جاپان فنڈنگ کرے گا بھارت ویکسین کی تیاری، آسٹریلیا اس کی تقسیم کا کام کرے گا اور اسی دوران چین کے خلاف بھی کام ہوگا۔
کواڈ، جس میں بھارت، امریکا، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں کو چین کے خلاف رکن ممالک کے درمیان بحری صلاحیت اور تعاون بڑھانے کے لیے2007ء میں قائم کیا گیا تھا لیکن امریکا کے صدر جو بائیڈن کی صدارت میں 12مارچ 2021ء کواڈ ممالک کی پہلی ورچوئل کانفرنس کے انعقاد کے موقع پر ایجنڈے کے بارے میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’قائدین کووڈ 19 کے وبائی مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے اور ہند وبحر الکاہل کے خطے میں سلامتی اور اشیا کی ترسیل کے ساتھ ساتھ سستی ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے میں تعاون کے بارے میں بات کریں گے۔
اس دوران امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ایک ورچوئل ملاقات بھی ہوگی، انتخابات میں کامیابی کے بعد نئے امریکی صدر کی بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ یہ پہلی ملاقات ہوگی۔
کواڈ اجلاس کے ایجنڈے سے ہٹ کر بھارتی وزارت خارجہ کی ایک پریس ریلیز کے مطابق ’رہنما باہمی دلچسپی کے علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے اور ایک آزاد، کھلے اور ایسے انڈو پیسفک خطے کو برقرار رکھنے کے لیے باہمی تعاون کے بارے میں گفتگو کریں گے جو سب کے لیے ہو یہی وہ ایجنڈا ہے جس پر چین کے شدید تحفظات ہیں‘۔
ایجنڈے کے مطابق علاقائی اور عالمی تجارت، کوویڈ پر کنٹرول اور عالمی موسمی تبدیلی پر کواڈ ورچوئل کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی، آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن، جاپان کے وزیر اعظم یوشی ہائیڈ سوگا اور امریکاکے صدر جو بائیڈن شامل ہوں گے۔ کواڈ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ کواڈ کے اصل ایجنڈے میں وسعت پیدا کی گئی ہے۔
کواڈ سیکورٹی ڈائیلاگ کے رکن ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے ہیں اور بھارت اس فورم کا ایک اہم رکن ہے۔ تاہم دوسری طرف بھارت ایک ایسے پلیٹ فارم میں بھی کافی سرگرم ہے جس میں بھارت اور چین کا اہم کردار ہے۔
یہ برکس (BRICS) کا فورم ہے جس میں بھارت اور چین کے علاوہ روس، برازیل اور جنوبی افریقا شامل ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال بھارت کو برکس کی صدارت ملی ہے اور وہ سال کے وسط میں یا اس کے فوراً بعد برکس سربراہ اجلاس کی میزبانی کرنے والا ہے، جس میں چینی صدر شی جن پنگ کی شرکت کا قوی امکان ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اس سال کی ایک بڑی پیش رفت ہو گی کیونکہ گزشتہ برس بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سخت کشیدگی کا شکار ہوگئے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف بھارت چین مخالف کاوشوں کا حصہ بن رہا ہے تو دوسرے فورم پر وہ چین کے ہمراہ کھڑا نظر آتا ہے، تو ایسی صورتحال میں نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ تعلقات میں توازن کیسے برقرار رکھا ہوا ہے؟
بھارت کے پاس توازن برقرار رکھنے کے دو طریقے ہیں۔
برکس ایک 15 برس پرانی تنظیم ہے اور اس میں دونوں ممالک کے درمیان بہت تعاون کیا گیا ہے لیکن یہ ادارہ ایسے وقت میں قائم کیا گیا تھا جب بھارت اور چین کے تعلقات بہت اچھے تھے۔
پچھلے تین چار برسوں میں اور خاص طور پر 2020ء میں چین کا کردار منفی ہو گیا اور بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چین کے تعلقات خراب ہوئے لہٰذا کواڈ کو آگے لایا گیا۔
جیسا پہلے بتا چکا ہوں کہ کواڈ کو 2007ء میں قائم کیا گیا تھا لیکن یہ چل نہیں سکا، امریکا نے چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنے کے لیے 2017ء میں کواڈ میں دوبارہ روح پھونک دی۔
بھارت کواڈ میں اس لیے شامل ہوا تھا کہ چین کے ساتھ طاقت کا توازن برقرار رکھ سکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب انڈوپیسفک کی چار بڑی طاقتیں بھارت، امریکا، جاپان اور آسٹریلیا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور چین کو بتائیں کہ خطے میں جو کچھ بھی کام کرنا چاہتے ہیں چین کو وہ قانون کے تحت تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر چین نے تعاون نہیں کیا تو ہم امریکا کے اتحاد سے وہ کریں گے جو ہماری بقا اور سلامتی کے لیے ضروری ہوگا۔
بھارتی اخبارات کا کہنا ہے کہ برکس میں بہت کام ہوا ہے اور یہ ایک متحرک ادارہ ہے یہ کواڈ سے زیادہ ترقی یافتہ ادارہ ہے۔ اب بھارت برکس کانفرنس کی میزبانی کرنے جارہا ہے لہٰذا برکس کو بھی آگے بڑھانا اس کے مفاد میں ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برکس زیادہ مضبوط ادارہ ہے؟ جب بھارت اور چین کے درمیان تعلقات خراب ہوئے تو برکس کو آگے لے جانے میں تھوڑی رکاوٹ آئی لیکن جب روس نے اس کی ورچوئل کانفرنس کی میزبانی کی تو بھارت کے وزیر اعظم اور چین کے صدر بھی اس میں شریک ہوئے۔
گزشتہ ماہ چین کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ چین چاہتا ہے کہ برکس کانفرنس کی میزبانی بھارت کرے، چین اس میں شریک ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ برکس کانفرنسوں میں شی جن پنگ کی شرکت پر نظر ڈالیں تو وہ پچھلے پانچ برسوں سے اس میں مستقل طور پر شریک ہو رہے ہیں اور بھارت میں خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس بار بھی اْن کے شامل ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے۔
2017 میں کواڈ کی تنظیم نو کی گئی تھی اور اس سال اس کی پہلی سربراہ کانفرنس ہوگی، حالیہ مہینوں میں وزیر اعظم مودی نے عالمی امور میں بھارت کو اہم کردار ادا کرنے پر زور دیا ہے بھارت چین کا ہمسایہ ملک ہے اور دونوں ممالک کے درمیان 4500 کلومیٹر کی مشترکہ سرحد ہے۔ چین کے بارے میں بھارت کی پالیسی میں ان چیزوں کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ بھارت برکس اور کواڈ دونوں میں شامل ہے۔
دنیا میں تعلقات کا سنبھالنا اور ان کا گہرا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تصادم سے حالات خراب ہو گئے ہیں، اس تصادم سے قبل دونوں ممالک کے درمیان دوستی مضبوط دکھائی دے رہی تھی۔
اقوام متحدہ جیسے بہت سے ممالک والے اداروں کی نسبت کم ممالک پر مبنی چھوٹے گروپوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ بتاتی ہے کہ کواڈ اور برکس دونوں میں بھارت کی شمولیت سے توازن بگڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
بھارت ہر بین الاقوامی اسٹیج پر بڑی ٹیبل پر بیٹھنا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ میں بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں کسی بڑے ملک کی قیادت ہمیشہ بڑی نہیں رہ سکتی ہے۔
چھوٹے گروپوں میں، بھارت خود کو ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتا ہے، جو ملک کا پروفائل بلند کرتا ہے، حالیہ مہینوں میں وزیر اعظم مودی نے عالمی برادری میں بھارت کو اہم کردار ادا کرنے پر بھی زور دیا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا کی چین کو بڑا دشمن قرار دینے کی وجہ سے بھارت اورچین کے درمیان تعلقات میں جمود بڑھتا جارہا ہے۔