(سچ خبریں) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں فلسطینی امور پر بات ہو تو لوگ مختلف آراء میں تقسیم ہوجاتے ہیں لیکن فلسطینیوں کو برا بھلا کہنے والا طبقہ صرف وہ ہے جو صیہونی ریاست کے ساتھ اپنی اندھی وفاداری نبھانے کی خاطر ہر اچھی بری بات کہنے کو تیار ہوتا ہے۔
آج کے دور میں تخلیق کئے جانے والے اینٹی سمیٹزم(Anti-Semitism) تصورات اور ہولوکاسٹ کے وسیع پس منظر میں یہ معلوم کرنا مشکل بات نہیں کہ کوئی شخص اسرائیلی دفاع اور حمایت کے بیانیے کے ساتھ کیوں چمٹا ہوا ہے؟ اور وہ اسرائیل کو خیر کی قوت اور فلسطین کو شر کی قوت ثابت کرنے پر کیوں مصر ہے؟
تلخ زمینی حقائق، اسرائیل کیلئے حمایت سمیٹنے کی غرض سے تخلیق کئے گئے ‘اینٹی سمیٹزم بیانیے’ سے بالکل الگ شواہد پیش کرتے ہیں۔ اسرائیل کا قیام چوری شدہ زمین پر عمل میں آیا جو مقامی فلسطینیوں کوبندوق کی نوک پر زبردستی آبائی گھروں سے بھگا کر حاصل کی گئی۔ اس عمل کے دوران مزاحمت کرنے والے ہر شخص نے صیہونی ملیشیا کے خلاف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
یہودی ریاست کے قیام کیلئے شروع کی جانی والی ‘صیہونی تحریک’ کی جدوجہد کو برطانوی حکومت کے 1917 کے’ بالفور اعلامیے’ نے تقویت بخشی، فلسطینی سرزمین پر ‘یہودی عوام کے قومی گھر’ کی تعمیر کا یہ اعلامیہ ایک ایسے شخص نے جاری کیا جسے نہ کوئی قانونی حق تھا اور نہ اخلاقی جواز۔
اگر کچھ اسرائیلی لیڈران اور ان کے حامی اپنے پاگل پن میں چیختے چلاتے رہیں تو اس سے حقائق تبدیل نہیں ہوجاتے، مثلاً 1969 میں اسرائیل کے ایک سابق وزیر اعظم گولڈا میر (Golda Meir) نے ذہنی دیوالیے پن میں غل مچایا تھا کہ ‘فلسطین کا کوئی وجود نہیں’۔ لیکن کیا وہ اس حقیقت سے لا علم تھے کہ 1949 میں فلسطینی مہاجرین کے لئے اقوام متحدہ نے ریلیف فنڈ کی ایجنسی قائم کی تھی اور اب اس ایجنسی (UNRWA) میں پچپن لاکھ فلسطینی مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ کیا ان فلسطینیوں کا وجودواقعی اس دنیا سے ختم ہوگیا؟
1967کی چھ روزہ جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرار داد 242 منظور کی جس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ لڑائی کےدوران قبضہ کی گئی زمین (مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، غزہ کی پٹی اور گولان کی پہاڑیاں) سے اپنی فوجیں نکالتے ہوئے واپس کرے۔ اسرائیل نے اس قرارداد کو نظر انداز کرتے ہوئے ان علاقوں پر اپنا فوجی تسلط برقرار رکھا جو آج بھی قائم ہے۔ 1948میں فلسطین کی سرزمین پر قیام اسرائیل سے لیکر اب تک قرارداد نمبر 242 کی طرح دیگر دوسو قراردادوں کو بھی یہ صیہونی ریاست نظر انداز کر چکی ہے۔ ان سارے ادوار میں فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین، ثقافت اور شناخت کے عدم تحفظ کے ساتھ نسل کشی کے حملوں کا بھی سامنا رہا۔ اسرائیل، عالمی طاقتوں کے اس گروہ کی سربراہی کرتا ہے جو جان بوجھ کر بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرتا یا توڑتا ہے اور کنونشنوں کا پاس بھی نہیں کرتا۔
ایک سال قبل جب وزیر اعظم نیتن یاہو نے ڈھٹائی کے ساتھ مقبوضہ مغربی کنارے کے حصے اسرائیل میں ملانے کے منصوبے کا اعلان کیا اور اس کے اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو کیا ان پر یہ بات واضح نہ تھی کہ مقبوضہ وادی اردن، شمالی بحیرہ مردار اور فلسطین کے باقی حصوں پر اسرائیلی بستیوں کا قیام اور خود مختاری مسلط کرنے کا انتخابی وعدہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے؟ لیکن انہیں انتخابات میں فتح حاصل کرنے کی غرض سے ایک غیر قانونی وعدہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوئی؟
1948 کے بعد سے اس طرح کی جارحانہ بیان بازی اور تباہ کن اسرائیلی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ فلسطینیوں نے قبضے کے خلاف اپنے جائز حق کیلئے مزاحمت کاجو طریقہ اپنایا اسےبین الاقوامی اداروں اور قانون نے بھی ہمیشہ جائز قرار دیا لیکن اسکے مقابلے میں اسرائیل کا ہر بیان اور اقدام غیر قانونی ہوتا ہے؟ کئی دہائیوں سے فلسطینی مزاحمت کو تقریباً تمام عرب ریاستوں کی حمایت حاصل رہی یہ الگ بات ہے کہ اب ایسا نہیں۔ کچھ خلیجی ریاستوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے اور کچھ دوستی کا ہاتھ بڑھانے کیلئے پر تول رہی تھیں کہ اسرائیل نے تمام امن وعدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غزہ اور فلسطین کو ایک بار پھر آگ اور خون سے نہلا دیا۔ پوری دنیا میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت ہوئی اور اسکے خلاف عوامی احتجاج ہوئے۔ اسرائیل سے کاروباری تعلقات بڑھانے کے بعد اسکے جارحانہ اقدامات کی بادل ناخواستہ ہی سہی، مذمت کرتے ہوئے خلیجی ریاستوں کے حکمرانوں کو کس قدر خجالت کا سامنا کرنا پڑا۔
خلیجی ریاستیں جب اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوششیں کر رہی تھیں تو بہت سے علمائے حق نے اس عمل کی شدید مذمت کی تھی لیکن وہ دانشور جو ریاض، ابوظہبی اور قاہرہ کی سرپرستی سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ اس موقع پر خاموش رہے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ان دانشوروں نے ڈالروں کی خاطر اپنے علمی، فکری و روحانی ورثے، فلسطینی زمین اور عوام کو بیچ دیا ہو۔ کیا ان لوگوں نے ذاتی مفادات کی خاطر اتنی اہم باتیں نظر انداز کردیں یا بھول گئے کہ یروشلم کے تاریخی شہر میں مسجد اقصیٰ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ کیا یہ لوگ، حضرت محمد ﷺکی معراج پر تشریف لے جاتے وقت مسجد اقصیٰ تک معجزاتی طورپر رسائی اور پھر وحی کےذریعے تبدیلی قبلہ کی ہدایت سے ناواقف ہیں؟
شیخ حمزہ یوسف امریکی نژاد اسکالر ہیں اور ابوظہبی میں ‘اسلامی معاشروں میں امن کے فروغ کے لئے منعقدہ فورم’ میں ایک اہم شخصیت کے طورپر شرکت کر چکے ہیں۔ وہ جب بھی متحدہ عرب امارات جاتے ہیں شاہی حکومت انکی میزبانی کے فرائض سرانجام دیتی ہے کیونکہ وہ حکمران خاندان کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ فرانس کے ایک چینل 24 پر انکا انٹرویو دیکھتے ہوئے مجھے اس وقت شدید مایوسی اور حیرت ہوئی جب انہوں نے کہا کہ ‘اگر فلسطینی تشدد کا راستہ چھوڑ دیں اور اسکے بجائے یہ کہیں کہ ہم کمزور اور لاچار ہیں، ہماری مدد کی جائے تو خدا کی قسم دنیا کا ہر شخص ان کا ہمدرد ہو جائے گا۔ لیکن جب وہ طاقتور ہتھیاروں کا مقابلہ اپنے چھوٹے اور معمولی ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کرکے کرتے ہیں تو نہ صرف وہ اپنا سب کچھ تباہ و برباد کرواتے ہیں بلکہ لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اس حملے کا آغاز فلسطینیوں نے ہی کیا تھا اور وہی قصوروار ہیں’۔ میں نے شیخ حمزہ کا یہ انٹرویو متعدد بار دیکھالیکن اس میں فلسطین کی ہمدردی اور ستر سال سے بے گھر اور بے آسرا لوگوں کی مدد اور حمایت میں مجھے ایک لفظ بھی نظر نہیں آیا۔
اگر فرض کریں فلسطینی قوم کی فطرت میں ایسی کمزوری پائی جاتی کہ وہ صرف دہائیاں دیتے اور اس بات کا اقرار کرتے کہ ‘ہم لاچاراور بے بس ہیں ہماری مدد کی جائے’ تو کیا شیخ حمزہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر واپس جانے کے جائز حق کے مطالبے کے دوران زندہ بچ جاتے اور عالمی دبائو میں آکر اسرائیل انکی نسل کشی کی جرات ہی نہ کرتا؟ روہنگیا کے مسلمانوں نے توآج تک کسی قسم کی مسلح مزاحمت نہیں کی وہ شیخ حمزہ کے بقول ‘کمزور اور لاچار’ ہیں لیکن پھر بھی دیکھیں ان کے ساتھ کیا ہوا؟ 750000 افراد کو نسلی بنیاد پر انکے ملک سے نکال کر بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا جہاں وہ مایوس کن حالات میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔
ایسے ہی کمزور اور لاچار مقبوضہ کشمیر کے لوگ ہیں جو ایک سال سے زائد عرصہ سے ہندوستانی فوج کے وحشیانہ لاک ڈائون کی زد میں رہے۔ اقوام متحدہ نے ان کے حق میں کئی قراردادیں پاس کیں لیکن اسکے باوجود انکا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ وہ اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے لیکن دنیا کا کوئی ملک نہ انکی مدد کو پہنچا اور نہ انہیں جائز حق دلوائے گئے؟ اگرشیخ حمزہ کے دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تو انہوں نے اپنے انٹرویو میں جو باتیں کیں انکا محرک اور موٹیویشن کیا تھی؟ کیا یہ سب خیالات امریکی اور اسرائیلی اسکالرز کے پروپیگنڈے کی توثیق یا بازگشت تھے؟
‘سیاسی بزدلی Political cowardice’ ان علماء، دانشوروں اور اداروں کی بنیادی خصوصیت ہے جو حق کیلئے کھڑے ہونے اور جائز مزاحمت کرنے کے بجائے اطاعت کی تعلیمات کو فروغ دیتے ہیں۔ وہ اپنے سرپرستوں کے مالی وعدوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے قاہرہ، ریاض اورمتحدہ عرب امارات کے قید خانے میں برسوں سے پڑے ہوئے ہزاروں سیاسی قیدیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ لوگ خوف، بے حسی اور لالچ کا شکا رہیں یا مشرق سے مغرب تک پھیلے ہوئے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرونے والی تعلیمات اور قوت کو فراموش کردینے کی کوئی اور وجہ ہے؟
مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو بے اثر کرنے کے کام پر جتے ہوئے ان اسکالرز کی مالی معاونت عرب حکمرانوں کے ذریعے ہوتی ہے یا پھر امریکہ اور اسرائیل کے راستے۔ انہیں جس کام کا حکم دیا جاتا ہے یہ بغیر سوچے سمجھے اسی کے حق میں راستہ ہموار کرتے ہیں۔ کیا کوئی سچا دانشور اور تجزیہ کار ظلم کی شکار قوم کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ اس وزیر اعظم کے سامنے گھٹنے ٹیک کر گڑگڑاتے ہوئے رحم اور امن کی درخواست کریں جو دنیا کو بتا چکا ہے کہ وہ فلسطین کی باقی ماندہ زمین پر قبضہ کرنے میں پر امید ہے۔ اور پھر اس نے یہ سچ ثابت کرنے کیلئے غزہ اور فلسطین پر دس روزہ جنگ مسلط کرتے ہوئے ٹینکوں، توپوں، راکٹوں اورہوائی حملوں سے 250 سو افراد ہلاک، 1500 سے زائد زخمی اورساٹھ ہزار بے گھر کئے ہوں۔ رہائشی پلازوں، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر سمیت 450 عمارتیں تباہ کرکے کھنڈر بنا دی ہوں۔ ان حالات کے باوجود بھی فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہیں۔
اگر فلسطینی اپنے جائز حقوق، شناخت اور وجود سے دستبردار ہوجائیں اور ہر قسم کی جدوجہد ترک کرتے ہوئے اپنا مستقبل اسرائیل اور امریکہ کے ہاتھ میں دے دیں تو پھر سب کے لئے آسانی ہو جائے گی۔ اگر فلسطینی بش انتظامیہ کے تجویز کردہ منصوبے کو مان لیتے تو آج ارجنٹائن اور چلی میں رہائش پذیر ہوتے۔ جارج ڈبلیو بش کی سیکرٹری خارجہ کونڈو لیزا رائس پچاس لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کو اسرائیل کے سامنے مزاحمت سے دستبردار ہونے کے عوض انہیں آبائی گھروں کو واپس بھجوانے کے بجائے جنوبی امریکا بھجوانا چاہتی تھی۔ امریکی سیکرٹری خارجہ نے اسرائیل کو وحشیانہ اقدامات سے روکنے کے بجائے یہ حیرت انگیز تجویز 2008 میں برلن میں ہونے والی امریکی، اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کی میٹنگ میں پیش کی تھی۔
خلیجی ریاستوں کا بھی یہی رونا ہے کہ اگر فلسطینی مزاحمت ختم ہو جائے تو وہ سب اسرائیل کے ساتھ کھلی تجارت اور سفارتی تعلقات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ حکمران اب بھی کھلے عام ان سہولیات سے فیضیاب ہو رہے ہیں اور کچھ درپردہ یہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی کاروباری، تجارتی اور فوجی معاہدات کر چکے ہیں جن میں جاسوسی طیارے خریدنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی اپنے کئی انٹرویوز میں یہ بات دہرا چکے ہیں کہ ‘اسرائیل کے ساتھ ہمارے بہت سے مفادات مشترکہ ہیں اور اگر امن ہوتا ہے تو ان تعلقات میں مزید بہتری آئے گی اور اضافہ ہوگا’۔ یہی سعودی حکومت 1947 میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے وقت سخت مخالف تھی اور اقوام متحدہ میں اسکے خلاف ووٹ دیا تھا۔ مکہ و مدینہ کے متولی ہونے کی حیثیت سے انکی حکومتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے فلسطینی کاز کا ساتھ دیا لیکن اب وہ اسی صیہونی ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔ نیتن یاہو نے ‘وارسا مڈ ایسٹ کانفرنس’ کی ویڈیو رپورٹ جان بوجھ کر لیک کی تھی جس میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کے وزراءے خارجہ نے ایران کے مقابلے میں اسرائیل کی موجودگی کو اپنے دفاع کے حق میں مفید قرار دیا تھا۔
یہی وہ لوگ ہیں جوپوری مسلم دنیا میں مغرب اور اسرائیل کی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسکو نافذ کرنے کیلئے اندرون و بیرون ملک اسلامی اسکالرز کو استعمال کرتے ہیں۔ ‘ڈالر دانشوروں’ اور انکی تنظیموں کو یہ خدمت سونپی گئی ہے کہ وہ بحث و مباحثے کے ذریعے سیاسی اور ادارتی جبر کی باتوں کو توڑ موڑ کر پیش کریں اور عوام کو اطاعت گزاری کیلئے تیار کریں۔ اس کام کیلئے انہیں بھاری معاوضے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
امریکہ، اسرائیل یا انکے دوست حکمران تو یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جو پٹرول پر انحصار کرتے ہیں یا ڈالر میں تنخواہ لیتے ہیں وہ بے چارے، لاچار، کمزور ہمارے ترس کے مستحق ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بے چاروں کی مفادپرستیوں، سہل پسندیوں اور موم کی طرح لچکدار رویوں کی وجہ سے ہی فلسطین کا مسئلہ پچھلی آٹھ دہائیوں سے حل نہ ہوسکا اوراپنی زمینوں سے بے دخل ہونے والے فلسطینی آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹ سکے۔ انہوں نے ازلی متاثرین بننے سے انکار کیا ہے اور انکی مزاحمت کی وجہ سے ہی یہ ایشو ابھی تک زندہ ہے ورنہ اگر وہ بھی لاچاری، بے بسی اور کمزوری کا مظاہرہ کرتے تو اب تک جنوبی امریکہ کی کسی لاوارث ریاست میں پہنچا دئے گئے ہوتے۔
قوموں کی زندگی میں آنے والے مشکل حالات بے بسی، لاچاری، پست ہمتی اور بے حمیتی سے نہیں بدلا کرتے۔ سینہ تان کر ان مصائب کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کی جدید اور سریع الحرکت فوج کے نشانہ بازوں، ٹینکوں، توپوں، راکٹوں، جہازوں اور ڈرونز کا مقابلہ کرنے کیلئے بہت بڑے اعتماد، ہمت، حوصلے اور دل گردے کی ضرورت ہے۔ آئے روز نہتے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے والے صیہونیوں کے خلاف مسلسل احتجاج، پتھرائو اورمزاحمت کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے جدیدمیزائلوں کو اگر روکا نہیں جا سکتا تو انکے جواب میں معمولی اور علامتی راکٹ ہی چلا کر اسے خوف میں ضرور مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔
یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ اسرائیل پر کسی مذمت کا کوئی اثر نہیں ہوتا پھر بھی اسکے وحشیانہ اقدامات کی ہر فورم پر مذمت ضروری ہے۔ یورپی یونین، اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف پیش کی جانے والی قراردوں پر عمل نہیں ہوتا، مشترکہ بیانیے کو امریکہ کے ذریعے رکوا دیا جاتا ہے لیکن اسکے باوجود ان عالمی فورمز پر اسرائیل کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے احتجاجوں کا اسرائیل پر کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ بیشتر طاقتیں عوام کی اس آواز کو اسرائیل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں لیکن اس کے باوجود دنیا بھر کی عوام کو مسلسل یہ باور کرانا ضروری ہے کہ اسرائیل ستر سال سے فلسطین کی زمین پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔ فلسطینیوں نے ہمیشہ مزاحمت کا اظہار کیا ہے اور وہ اپنی آزادی اور انصاف کے حصول کی خاطر ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں، یہ تصور ان دانشور وں کے لئے بالکل اجنبی اور سمجھ سے بالاتر ہے جن کے معذرت خواہانہ رویے، بے بسی، لاچاری اور خاموشی کو ایسے معاملات میں بہت سستے داموں خریدا جا سکتا ہے۔