سچ خبریں:سعودی عرب گزشتہ سال بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہو گیا تھاجبکہ سعودی ولی عہد کو 2022 میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
الخلیج الجدید کی رپورٹ کے مطابق سعودی اپوزیشن کے قلمکار مضاوی الرشید نے مڈل ایسٹ آئی ویب سائٹ میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ سال 2021 سعودی عرب کے لیے مایوسیوں کا ایک سلسلہ لے کر آیا جس کی وجہ سے یہ ملک بین الاقوامی میدان میں مرکزی کردار ادا نہیں کر سکا۔
الرشید نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کے مغربی اتحادیوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ریاض اب عرب اور اسلامی دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے قابل بھروسہ نہیں رہا لہذا وہ 2022 میں سعودی عرب کو مزید الگ تھلک کرنا جاری رکھیں بے جبکہ خطے میں قطر، متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ امریکہ کے دیرینہ اتحادیوں جیسے کہ مراکش، اردن اور مصر کے کردار میں اضافہ کریں گے۔
مضاوی الرشید نے مزید لکھا کہ بائیڈن حکومت کے آنےسے امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات بہت متاثر ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ آج واشنگٹن یا کسی دوسرے مغربی ملک میں محمد بن سلمان کا خیرمقدم نہیں کیا جاتا، اس حد تک کہ وہ 21ویں حالیہ موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے نیز سعودی ولی عہد کو افغانستان میں اس وقت بھی امریکہ کی مدد کرنے میں بھی کوئی کردار نہیں دیا گیا، جب اس کے فوجی دستے عجلت میں پیچھے ہٹ گئے اور طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محمد بن سلمان سے ہمیشہ نفرت کی جائے گی اس لیے کہ سعودی عرب کے ساتھ معاملات میں امریکہ بدستور محتاط ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ سعودی تیل کا بہاؤ مناسب طریقے سے جاری رہے تاکہ تیل کی قیمتوں کو بڑھنے سے روکا جا سکے اور دو سال بعد مغربی معیشت کو بحال کرنے میں مدد مل سکے لیکن کورونا وائرس کے نتائج اور تیل کی مانگ میں کمی کے ساتھ ساتھ نئے کورونا اسٹرین "اومیکرون” کے پھیلنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2022 سعودی عرب کے لیے ایک اور نامعلوم سال ہوگا۔