🗓️
سچ خبریں:سعودیوں کے لیے سال 2022 کا آغاز صدی کے خوفناک ترین جرائم میں سے ایک کے ساتھ ہوا اور انسانی حقوق کے حلقوں کو خدشہ ہے کہ 2023 کے آغاز میں سعودی عرب کی جانب سے ایک اور جرم کی خبر سن کر دنیا حیران رہ جائے گی۔
دنیا میں انسانی حقوق کا سیاہ ترین ریکارڈ رکھنے والے سعودی عرب نے سال 2022 کا آغاز اس طرح سے ایک بھیانک جرم سے کیا کہ 12 مارچ کو اس ملک میں 81 افراد کی اجتماعی پھانسی کی خبر نے دنیا کو ہلا دیا ایک ایسا عمل جس نے تمام قانونی اور انسانی حلقوں کو چونکا دیا۔
2022 کا آغاز صدی کے سب سے خوفناک جرم کے ساتھ
سعودی عرب میں غیر قانونی پھانسیوں کے معمول کے باوجود، یہ آل سعود کی طرف سے گزشتہ دہائیوں میں کیا جانے والا سب سے گھناؤنا جرم ہے جس نے جھوٹے الزامات کی بنا پر صرف ایک دن میں اتنے لوگوں کا قتل عام کیا، اس سے پہلے سعودی حکومت نے 1980 میں حکومت مخالف ایک فرقے کے ارکان کی جانب سے مسجد الحرام پر قبضے کے ایک سال بعد ایک ہی دن میں 63 افراد کو پھانسی دی تھی یاد رہے کہ2022 میں اجتماعی پھانسی کے نئے جرم کا شکار ہونے والے81 افراد میں سے نصف شیعہ تھے جن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کی گرفتاری کے وقت قانونی عمر کم تھی، تاہم آل سعود حکومت کی جانب سے عدالتی اصلاحات اور نابالغوں کی پھانسی کو منسوخ کرنے کے دعوؤں کے باوجود سعودی عرب میں اس قانون کی منظم خلاف ورزی اور شیعہ بچوں اور نوعمروں کو پھانسی دینے کا سلسلہ جاری ہے، یاد رہے کہ جن لوگوں کو پھانسی بھی دی گئی ان کے لیے کوئی سرکاری عدالت نہیں لگائی گئی اور نہ ہی ان کے جرائم ثابت ہوئے نیز وہ وکیل کرنے سے بھی محروم تھے جبکہ بہت سے مبصرین اور ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے دنیا کے یوکرین کے بحران میں الجھے ہونے کا فائدہ اٹھا کر یہ جرم کیا، تاہم اقوام متحدہ اور امریکہ کی نگرانی میں اور سعودی ڈالروں سے چلنے والے اداروں سے اس جرم کے خلاف نہ کچھ کہا اور نہ ہی اس کے جواب میں کوئی عملی اقدام اٹھایا بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو صرف معمولی اور نرم لہجہ میں بیانات تک ہی محدود کر رکھا جس نے سعودیوں کو اپنے جرائم کو جاری رکھنے میں مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنے کا ہمت دی۔
بائیڈن کے انسانی حقوق کے دعووں کا کھوکھلا ہونا اور اپوزیشن کو ختم کرنے کے لیے بن سلمان کا موقع سے فائدہ اٹھانا
یوکرین روس جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والا یورپی اور امریکی توانائی کا بحران ریاض اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لیے ذاتی طور پر کئی سال کی تنہائی سے نکلنے کا ایک اور موقع تھا۔ جہاں امریکی صدر جو بائیڈن کو یہ ثابت کرنا تھا کہ سعودی انسانی حقوق کے معاملے کو ہینڈل کرنے کے بارے میں وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے پر انہوں نے جتنے بھی دعوے کیے وہ دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں تھے،بائیڈن جنہوں نے اس سے قبل خلیج فارس کے ممالک خاص طور پر سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ امریکہ اور یورپ میں ایندھن کے بحران کو حل کرنے کے لیے اپنی تیل کی پیداوار میں اضافہ کریں، ان کی جانب سے منفی جواب ملنے کے بعد،انہوں جولائی 2022 کے وسط میں سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں سعودیوں اور خود بن سلمان نے ان کا پرتپاک استقبال نہیں کیا گیا، یہاں ایک بات واضح ہو گئی کہ جمال خاشقجی کے قتل سمیت سعودی انسانی حقوق کے مقدمے کے حوالے سے بائیڈن انتظامیہ بہت سے دعووں کے باوجود ثابت ہو گیا کہ تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے ریاض کی رضامندی حاصل کرنا امریکی عوام اور سعودی عرب کو سزا دینے کے وعدوں کو پورا کرنے کی امید رکھنے والے دوسرے ممالک کی رائے عامہ کی امیدوں پر پورا اترنے سے کہیں زیادہ اہم ہے، جب بائیڈن اپنے سعودی عرب کے دورے سے خطے میں چین اور روس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے، ایران کے خلاف عرب اسرائیل اتحاد کی تشکیل، یورپی اور امریکی توانائی کے بحران کو حل کرنے سمیت کئی مقاصد حاصل کر رہے تھے، ایسا لگتا ہے کہ محمد بن سلمان اس سفر کے فاتح ہیں، اس حد تک کہ انہوں نے 2 سال کی تنہائی گزارنے کے بعد اپنے مخالفین کو دبانے کی ایک نئی اور شدید لہر شروع کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
پھانسیوں اور طویل قید کی سزاؤں میں سعودی عرب کا ریکارڈ قائم
سعودی عرب، جس نے امریکی انتخابات میں بائیڈن کی جیت کے آغاز میں انسانی حقوق کے زمرے میں ظاہری کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع تھا اور سعودی خاتون سماجی کارکن لجین الهذلول سمیت متعدد کارکنوں کو پیرول پر رہا کیا تھا، گزشتہ چند ماہ کے دوران انہوں نے مخالفین کے خلاف عجیب و غریب احکام جاری کئے، اسی دوران سعودی خاتون کارکن سلمی شہاب کو سعودی عدالتی نظام کی جانب سے ایک انتہائی متنازع سزا سنائی گئی، انہیں محض چند ٹویٹس شائع کرنے پر 34 سال قید کی سزا سنائی گئی لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور اس کے بعد ایک اور سعودی خاتون کارکن نورہ القحطانی کو 45 سال قید کی سزا سنائی گئی،سعودی عدالت نے سعودی عرب میں مقیم تیونسی خاتون ڈاکٹر مہدیہ المرزوقی کو بھی لبنان کی حزب اللہ کی حمایت میں ٹویٹ لکھنے پر 2 سال 8 ماہ قید کی سزا سنائی تھی تاہم اس کے بعد اس نے اس سزا کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان پر دوبارہ مقدمہ چلایا اور 15 سال قید کی سزا سنائی،سعودی عدلیہ نے متعدد سعودی علما کو بھی طویل قید کی سزا سنائی جس میں شیخ ناصر العمر کی سزا کو 10 سال سے بڑھا کر 30 سال کردیا نیز شیخ عبدالرحمن المحمود کو 25 سال ، شیخ عصام العوید کو 27 سال اور شیخ ابراہیم الداویش کو 15 سال قید کی سزا سنائی گئی، اسی طرح سعودی عدالتی نظام نے مسجد الحرام کے سابق امام صالح آلطالب کی رہائی کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہیں مزید 10 سال قید کی سزا سنائی۔اس کے علاوہ عالم دین ابراہیم الناصر کی سزا میں بھی 3 ماہ سے 3 سال اور پھر 15 سال تک قید تک اضافہ کر دیا، اس کے علاوہ دیگر طویل مدتی نظر بندی کے جو احکامات جاری کیے گئے ہیں، ان میں درج ذیل مقدمات کا ذکر کیا جا سکتا ہے؛ صالح التویجری (15 سال)، شیخ ابراہیم الداویش (15 سال)، محمد الالمعی (20 سال)، شاعر وسیم سعد۔ کدہ (14 سال)، محمد الجدیعی (18 سال)، قاسم الالمعی (8 سال)، علی الالمعی (23 سال)، عبدالرحمٰن المحمود (25 سال) )۔
اس کے علاوہ یوسف المناسف، علی السبیتی، عبدالله الدرازی، جواد آلفریریص، عبدالله الحویطی، جلال آللباد اور دو دیگر نوعمر افراد ان لوگوں میں شامل ہیں جنہیں سعودی حکومت نے پرامن مظاہروں میں شرکت جیسے الزامات عائد کرکے موت کی سزا سنائی ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے یہ تمام غیر انسانی اقدامات صرف چند مہینوں میں انجام پائے جس کے بعد مبصرین کا کہنا ہے کہ 2022 سعودیوں کے لیے خونی سال ثابت ہوا، ادھر اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں 2022 میں پھانسیوں کی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں دگنی رہی جبکہ الحرہ ویب سائٹ نے باخبر ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کرسمس کی چھٹیوں کے دوران اجتماعی پھانسی کے خطرناک سعودی منصوبے کے بارے میں خبردار کیا ہےجیسا کہ انھوں نے 2016 میں کیا تھا جب دسمبر کے آخر میں کئی بچوں سمیت کم از کم 50 افراد کو پھانسی دی تھی، کہا جاتا ہے کہ آل سعود حکومت پھانسیوں کے نئے دور میں کم از کم 60 مخالفین کو پھانسی دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
امریکہ سعودی تعلقات؛ تیل کی کشیدگی سے بن سلمان کے لیے عدالتی استثنیٰ تک
جب کہ بائیڈن نے امید ظاہر کی تھی کہ خطے کے ان کے دورے کے بعد سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھا کر عالمی منڈی میں توانائی کی قیمتوں کو مستحکم کرنے میں مدد کرے گا لیکن ماسکو اور ریاض کے درمیان اوپیک پلس میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کا معاہدہ تمام امریکی امیدوں پر پانی پھر گیا بلکہ یقیناً یہ اس ملک اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی کشیدگی کا آغاز تھا جہاں ریاض اور واشنگٹن کے تعلقات گزشتہ چند مہینوں میں تیل کی پالیسیوں کی وجہ سے کچھ کشیدہ ہونے پر امریکی سینیٹرز نے سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگانے کی دھمکی دی تھی، جو یقیناً دکھاوا تھا نیز فریقین کے درمیان ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری رہا، درایں اثنا چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب اور 9 دسمبر 2022 کو ریاض میں ہونے والی چین عرب سربراہی اجلاس میں ان کی شرکت نے بھی امریکہ سعودی تعلقات میں اختلافات کے بارے میں کچھ قیاس آرائیاں کی تھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی مختلف شعبوں میں خاص طور پر فوجی اور ہتھیاروں کے شعبوں میں، مکمل طور پر امریکہ پر انحصار کرتے ہیں جس کی بنا پر دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات میں سنگین تناؤ یا مثال کے طور پر، سعودی عرب چین اور روس کو امریکہ کی جگہ دینے کا ارادہ رکھتا ہے، کے بارے میں بات نہیں کر سکتے، اگرچہ ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تیل کے تنازعات ابھی تک مکمل طور پر حل نہیں ہوئے ہیں تاہم نومبر 2022 میں امریکی محکمہ انصاف نے اس ملک کےانسانی حقوق کے تمام دعووں کی پول کھولتے ہوئے محمد بن سلمان کو خاشقجی کیس سے عدالتی استثنیٰ کا حکم جاری کیا؛ ایک ایسا فیصلہ جسے امریکہ کے اندر اور باہر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، واضح رہے کہ محمد بن سلمان بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں تخت تک پہنچنے کے لیے امریکہ کی حمایت کی ضرورت ہے اور اگر انہیں یہ تخت جو بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی کے دوران ملنا ہے تو اس وقت موجود واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کی کشیدہ فضاء سعودی ولی عہد کے حق میں نہیں ہے۔
یمن کی جنگ میں شکست کا اعتراف
سعودی عرب نے 2015 سے ایک لاحاصل اور تباہ کن جنگ شروع کر کے لاکھوں بے گناہ یمنی شہریوں کو بے گھر اور ان کا قتل عام کیا اور سب سے بڑی انسانی تباہی کو جنم دیا، تاہم مارچ 2022 میں یمن جنگ کی آٹھویں برسی کے موقع پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اس پر اتفاق کیا اس لیے کہ اس کے تمام حربے ناکام ہوچکے تھے، یمنی مسلح افواج کے میزائل اور ڈرون حملوں کا مقابلہ کرنے میں ناکامی، مأرب کے محاذ پر پے درپے شکست، متحدہ عرب امارات کے ساتھ تنازعات میں اضافہ اور سعودی جنگی اتحاد کا ٹوٹنا، ہتھیاروں کی خریداری کے حیران کن اخراجات، علاقائی اور بین الاقوامی حالات وغیرہ ان عوامل میں شامل تھے جنہوں نے سعودیوں کو جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا،اگرچہ سعودی عرب نے اپریل میں شروع ہو کر اکتوبر تک بڑھائے جانے والے جنگ بندی معاہدے کی ہمیشہ خلاف ورزی کی اور معاہدے کی کسی ایک بھی شق پر عمل نہیں کیا لیکن بہت سے لوگ اس معاہدے کو یمن جنگ میں ریاض کی شکست کے اعتراف کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں اگرچہ سعودیوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، تاہم انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اب یمن کی دلدل میں مزید پھنسے نہیں رہ سکتے البتہ سعودی عرب کی جانب سے جنگ بندی کی بارہا خلاف ورزیوں کے بعد یمنی عوام نے جنگ بندی کی تجدید سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر سعودی عرب کی جارحیت اور یمنی قوم کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو یمنیوں کا فوجی آپشن اب بھی ٹیبل پر ہے۔
سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے اشارے
2022 کے وسط سے اور بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے کے بعد، ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے بارے میں بہت سی بات چیت ہوئی، خاص طور پر عبرانی میڈیا میں جس کا اختتام بنجمن نیتن یاہو کے دوبارہ اسرائیلی وزیر اعظم کے طور پر انتخاب ہونے اور دورِ اقتدار میں واپسی کے ساتھ ہوا ، یہاں تک کہ گزشتہ چند ہفتوں سے سعودی اور صہیونی حکام باضابطہ طور پر سمجھوتے کے معاہدے کو ظاہر کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اس تناظر میں حال ہی میں سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے اعتراف کیا کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات عام کرنے کا وقت قریب آ رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات معمول کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ایک اسٹریٹجک آپشن ہے نیز سینئر سعودی حکام نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسرائیل کے ساتھ اس ملک کی مفاہمت میں صرف وقت کی دیر ہے، تاہم سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کا تازہ ترین اور واضح اشارہ نیتن یاہو کا سعودی العربیہ چینل کو دیا جانے والا انٹرویو تھا جس کے دوران نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ ریاض کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور پر معمول پر لانے کے لیے پرعزم ہیں، اسی تناظر میں اسرائیل کے آئی 24 نیوز چینل نے چند روز قبل ایک رپورٹ شائع کرکے اعلان کیا کہ سعودی عرب تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کے باضابطہ طور پر اسرائیلی کابینہ کے سربراہ بننے کا انتظار کر رہا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور اس کے نوجوان ولی عہد جنہوں نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں صیہونیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے سعودی عرب اور تمام عرب ممالک کی رائے عامہ کے لیے حالات سازگار کرنے کی کوشش کی، اب نیتن یاہو کے اقتدار میں واپسی کو اس کوشش کے نتیجہ خیز ہونے کا اچھا موقع جانتے ہیں،عبرانی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بن سلمان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے شرائط پیش کی ہیں جن میں سعودی عرب کے لیے امریکی حمایت ،امریکہ کی جانب سے ریاض کو ہتھیار بھیجنے کا عزم اس طرح کہ سعودی عرب بھی نیٹو ممالک کا جز ہے ،سعودیوں کو یورینیم کے بڑے ذخائر کو جوہری پروگرام کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دینے والا معاہدہ ،ان شرائط میں شامل ہے، محمد بن سلمان، جنہوں نے ولی عہد کا عہدہ برقرار رکھتے ہوئے، چند ماہ قبل سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے وزارت عظمیٰ کا حکم حاصل کیا تھا، اب تخت پر بیٹھنے والے ہیں نیز مزید سختی کے ساتھ اپوزیشن کو دبانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی شاہ سلمان کی موت سے قبل بھی ہو سکتی ہے، دستیاب اشاریوں کے مطابق بن سلمان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے ایک صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے، ایسی صورت میں فلسطینی کاز کی حمایت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت کے حوالے سے تمام سعودی دعووں کو ٹھکرا دیا جائے گا،خاص طور پر صیہونی فاشسٹ کابینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد فلسطینیوں کے خلاف صہیونی جرائم کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو گا۔
مشہور خبریں۔
غزہ سے متعلق مجوزہ قراردادوں کے بارے قطر کا بیان
🗓️ 25 اکتوبر 2023سچ خبریں:اقوام متحدہ میں قطر کے نمائندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس
اکتوبر
سعودی ولی عہد اور موساد کے نئے سربراہ کے درمیان گہرے تعلقات کا انکشاف
🗓️ 29 مئی 2021سچ خبریں:عبرانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ موساد کے نئے سربراہ
مئی
عام انتخابات کب ہوں گے آصف زرداری نے بتا دیا۔
🗓️ 11 مئی 2022کراچی (سچ خبریں)پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی
مئی
بھارت میں کورونا وائرس کا قہر اور بھارتی میڈیا کی کمبھ میلے پر مکمل خاموشی
🗓️ 24 اپریل 2021(سچ خبریں) بھارت میں اس وقت کورونا وائرس نے شدید قہر مچا
اپریل
امریکی انتخابی جنگ کا سب سے تاریک اور جرات مندانہ موضوع کیا تھا؟!
🗓️ 30 جون 2024سچ خبریں: بچوں کو قتل کرنے والی صیہونی حکومت کی حمایت میں وائٹ
جون
10 Fashion Stories From Around The Web You Might Have Missed This Week
🗓️ 6 اگست 2022 When we get out of the glass bottle of our ego
فاکس نیوز کے اینکر وزیر دفاع مقرر؛ٹرمپ کا حیران کن فیصلہ
🗓️ 13 نومبر 2024سچ خبریں:امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فاکس نیوز کے
نومبر
مہاجرین کی مسلسل واپسی اور قیدیوں کے تبادلے کا نیا دور
🗓️ 30 جنوری 2025سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے بارہویں روز بھی
جنوری