سچ خبریں:امریکہ اور انگلینڈ نے گزشتہ تین ہفتوں میں یمن پر کئی بار حملے کیے ہیں۔ شدید ترین حملوں میں سے ایک میں، یمن بھر میں تقریباً 30 مقامات پر 60 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔
صنعاء حکومت کی وزارت دفاع کے گائیڈنس ڈپارٹمنٹ کے نائب عبداللہ بن عامر نے X سوشل نیٹ ورک پر اعلان کیا کہ صنعاء پر جو حملے کیے گئے وہ غالباً سب سے شدید حملے ہیں جو اب تک یمن کے خلاف منظم کیے گئے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ یمن کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے حملے کیوں تیز ہو گئے ہیں؟
یمن پر پہلا امریکی اور برطانوی حملہ 12 جنوری 2024 کو کیا گیا۔ پہلے دو ہفتوں کے دوران 8 حملے کیے گئے جس سے یمن سے نمٹنے کے لیے امریکیوں کا عزم ظاہر ہوتا ہے۔ یمن کے خلاف حملوں کو جاری رکھنے اور اس میں شدت لانے کے امریکہ کے اہم ترین اہداف یہ ہیں:
1۔ صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھیں
اس سلسلے میں پہلی وجہ غزہ کے خلاف جنگ میں صیہونی حکومت کی مسلسل حمایت ہے۔ غزہ کے خلاف جنگ کا چوتھا مہینہ گزر رہا ہے اور حکومت اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ بعض خبریں جنگ جاری رکھنے کے بارے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے درمیان اختلاف کی نشاندہی کرتی ہیں لیکن واشنگٹن اس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یمن کے خلاف حملے اسی سمت میں جاری ہیں اور امریکہ صیہونی حکومت کو صرف غزہ اور لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ شمالی محاذ پر مرکوز کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس حوالے سے انصار اللہ کی سپریم پولیٹیکل کونسل کے رکن محمد علی الحوثی نے اس بات پر زور دیا کہ نیا حملہ یمن کو غزہ کی حمایت سے روکنے کی ایک نئی کوشش ہے لیکن جارحیت کرنے والوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ردعمل کے وقت میں ہیں۔ ہمارے لوگ ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔
2. اقتصادی خدشات کے بارے میں دعوے
یمن جغرافیائی سیاست کے حوالے سے خاص اہمیت کا حامل ہے جس کی بڑی وجہ باب المندب کا کنٹرول ہے۔ آبنائے باب المندب بحیرہ احمر کو بحر ہند اور درحقیقت دنیا کے مشرق اور مغرب سے ملاتا ہے۔ اقتصادی میدان میں، یہ آبی گزرگاہ بحیرہ روم اور بحر ہند کے درمیان اہم تجارتی شریان ہے۔
انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کا اندازہ ہے کہ دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ شپنگ باب المندب سے گزرتی ہے، جو کہ سالانہ کئی ارب ٹن کارگو کے برابر ہے۔ اس آبنائے سے برآمد ہونے والے تیل کی مقدار کے بارے میں کوئی واحد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ جب کہ بعض ذرائع اس راستے سے روزانہ 4 لاکھ 400 ہزار بیرل تیل کی برآمد کی اطلاع دیتے ہیں، ورٹیکسا تیل تجزیہ کرنے والی کمپنی نے اعلان کیا کہ 2023 کے 11ویں مہینے میں روزانہ تقریباً 7 لاکھ 80 ہزار بیرل خام تیل اور ایندھن کا کارگو اس آبنائے سے گزرے گا۔
3. یمنی فوجی ذخائر کو تباہ کرنا
یمن کے خلاف حملوں کی ایک اور وجہ یمنی فوج کے پاس فوجی ذخائر کا قبضہ ہے۔ نائب قومی سلامتی کے مشیر جان فائنر نے اس حوالے سے کہا کہ ان کے پاس جدید ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جو انہیں کئی معاملات میں فراہم کیا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم ان ذخائر کو نکال رہے ہیں تاکہ وہ وقت کے ساتھ زیادہ حملے نہ کر سکیں۔ امریکی نائب قومی سلامتی کے مشیر کا یہ واضح تبصرہ ایک طرف صیہونی حکومت کے لیے امریکی حمایت کو ظاہر کرتا ہے اور دوسری طرف علاقائی ممالک کو کمزور رکھنے کی واشنگٹن کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔
4. اتحاد کے لیے امریکہ کی طاقت کا مظاہرہ
چوتھی وجہ مختلف ممالک کو متحد کرنے کے لیے امریکہ کی اپنی طاقت دکھانے کی خواہش ہے۔ امریکہ نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کی حمایت کے لیے 11 ممالک کی شمولیت سے ایک سمندری اتحاد تشکیل دیا۔ بحیرہ احمر سے متصل ممالک سمیت کئی ممالک نے اس اتحاد میں حصہ نہیں لیا۔ بحیرہ احمر کے تمام ساحلی ممالک یعنی ایک طرف اردن اور سعودی عرب اور دوسری طرف مصر، سوڈان، جبوتی، اریٹیریا اور صومالیہ، ان میں سے کسی کا بھی امریکی حملوں کی حمایت میں واضح موقف نہیں تھا۔
لیکن امریکی حکومت جس نے روس اور یوکرین کی جنگ میں ماسکو کے خلاف بھی اتفاق رائے کیا تھا، نے ایک بار پھر اتفاق اور اتحاد کی اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکومت کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے یمن کے خلاف فوجی کارروائیوں کا موجودہ دور شروع کرنے کے فیصلے کے پیچھے نظریہ اور معاشیات ہی اصل محرک ہے۔ بائیڈن کا خیال ہے کہ امریکہ کو ایک ایسے ملک کے طور پر کام کرنا چاہئے جس کی دوسروں کو ضرورت نہیں ہے، ایک مضبوط فوج کے ساتھ جو مختلف ممالک کو ایک مشترکہ مقصد کے گرد متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
5۔ صنعاء کی حکومت پر معاشی اور سیاسی دباؤ ڈالنا
یمنیوں کے خلاف امریکی حملوں میں اضافے کی ایک اور بڑی وجہ صنعاء میں قائم نیشنل سالویشن حکومت پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ ہے۔ یمن کے خلاف حملوں کے بعد امریکی حکومت نے انصار اللہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے اور بلاشبہ انصار اللہ اور صنعاء حکومت کے خلاف نئی پابندیاں عائد کرے گی۔ ان سیاسی اقدامات سے یمنیوں پر فوجی حملوں میں شدت کے ساتھ معاشی دباؤ بھی بڑھے گا۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ یمن کے خلاف سعودی عرب کی 8 سال کی جنگ کے دوران یمن کا بنیادی ڈھانچہ بالخصوص شمالی علاقوں میں تقریباً تباہ ہو چکا ہے اور اس نے یمن کو بھاری اقتصادی نقصان پہنچایا ہے۔
نتیجہ
یمن کے خلاف امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حملے ایسے حالات میں کیے جاتے ہیں کہ جب قابض القدس حکومت کی جنگی مشین کو روکنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی جاتی۔ یہ حملے اس حقیقت کی واضح مثال ہیں کہ انسانی حقوق بنیادی طور پر امریکیوں اور ان کے مغربی اتحادیوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ امریکیوں نے یمنیوں کے خلاف حملوں میں اضافہ کرکے غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کی حمایت میں اضافہ کیا ہے۔