سچ خبریں:یمن جنگ میں شکست کی تلافی کے لیے سعودی عرب کے غیر عقلی اقدامات نے خطے میں اس کی پوزیشن کی واپسی کا راستہ مشکل سے مشکل بنا دیا ہے۔
یمن جنگ کے خاتمے اور سعودی عرب کی پے در پے شکستوں نےاس ملک کو اس جنگ میں اپنے نقصانات کا حساب کتاب کرنے کے مرحلے میں ڈال دیا ہے اور وہ کم سے کم نقصان کے ساتھ اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے۔علاقائی تزویراتی امور کے ماہر امین محمد حطیط نے اپنے ایک کالم میں یمن جنگ میں سعودی عرب کی بھاری شکست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہےکہ 2015 میں سعودی عرب کے حکمران نے یمن پر حملہ کرنے کے لیے اپنے لڑاکا طیارے بھیجےاور یمنیوں کے خلاف تباہ کن جنگ کا آغاز "عزم کا طوفان” کے نام سے کیا گیا۔
انھوں نے لکھا کہ اس وقت سعودی عرب کا خیال تھا کہ اس جنگ میں اپنے اہداف کا حصول آسان اور یقینی ہے اور یمن کی تیل اور گیس کی دولت کے سعودی عرب کے ہاتھوں میں آنے نیز باب المندب اور بحیرہ احمر پر اس کے تسلط کو صرف کچھ ہفتوں کی ضرورت ہوگی، سعودی عرب کے اس عزائم کو امریکہ اور برطانیہ کی حمایت سے تقویت ملی اور سعودیوں کے ذہنوں میں یہ وہم پیدا ہوا کہ وہ اتنے طاقتور ہیں کہ کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
خاص طور پر یمن جنگ کے آغاز سے ہی خطے میں مزاحمت کا محور عراق اور شام میں دہشت گردی کے خلاف لڑ رہا تھا اور ہر طرف سے دباؤ میں تھالہذا یہ خطے میں اپنے اہداف کے حصول کا سب سے بڑا موقع ہے خاص طور پر مزاحمت کے خلاف ، اگر یہ ضائع ہو گیا تو اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو گا۔
جب کہ سعودی عرب، تباہ کن یمن جنگ کے رہنما کے طور پریہ سمجھتا تھا کہ اس جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمتوں میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے،تاہم ایسانہیں ہوابلکہ متحدہ عرب امارات کے اتحادی اور یقیناً سعودی عرب کے اصل حریف ہونے کی خواہش یمن کے خلاف جارحیت میں ریاض سے کم نہ تھی۔