لاہور(سچ خبریں)پنجاب کی سیاست نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران کئی ہنگامے دیکھے جن میں دارالحکومت میں ہونے والے بڑے واقعات بشمول وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد، وزارت عظمیٰ بچانے کے لیے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کرنا، ایم کیو ایم پاکستان کا حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے اپوزیشن کے ساتھ مل جانا شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف جہانگیر خان ترین گروپ نے ایک بار پھر پنجاب کی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کر لی ہے کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اس کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور اس کے صوبائی حکومت کی تشکیل فیصلہ کن کردار ادا کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
تاہم جہانگیر ترین گروپ جو 17 اراکین صوبائی اسمبلی اور تقریباً 8 اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل ہے ایک مرتبہ پھر انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور فیصلہ کرنے کے لیے مشاورت بھی نہیں کر رہا۔
ترین گروپ کے ایک رکن نے کہا کہ وہ (آج) جمعرات کو لاہور میں جمع ہو سکتے ہیں، توقع ہے کہ جہانگیر ترین ایک یا دو روز میں وطن واپس آ جائیں گے اور اپنے تمام حامیوں کے ساتھ بات چیت کے بعد کوئی حتمی فیصلہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مرکز اور پنجاب میں سیاسی ڈراما ختم ہو چکا ہے، حکومت اور پرویز الٰہی دونوں حمایت کے لیے گروپ سے بات کر رہے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی ’قابل عمل‘ منصوبوں پر کام کرنے کے لیے گروپ کے ساتھ رابطے قائم کر رہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کی برطرفی اور پرویز الٰہی کے سب سے بڑے صوبے کا چیف ایگزیکٹو بننے کے ساتھ ہی پورا منصوبہ تیار کر لیا گیا تھا لیکن چوہدری خاندان کے ایک فرد کی طرف سے ‘جلد بازی’ کے فیصلے نے اگلے سیٹ اپ میں پرویز الٰہی کے امکانات کو ختم کر دیا ہے۔
گروپ کے رکن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے ہی مائنس بزدار پنجاب حکومت کا اپنا بنیادی مطالبہ حاصل کرلیا ہے اور حکومت یا اپوزیشن کی جانب سے ہمارے راستے میں آنے والی کوئی بھی اضافی مراعات وہ ایک بونس ہو گا۔
دوسری جانب پرویز الٰہی جو کہ مسلم لیگ (ق) پنجاب کے صدر بھی ہیں نے قومی اسمبلی میں عمران خان کو بچانے کے لیے اراکین کو راضی کرنے کی ذمہ داری ترک کرتے ہوئے، وزیر اعظم کی جانب سے پیش کردہ وزارت اعلیٰ کے موقع کو بچانے کے لیے اپنے ارد گرد زیادہ سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی جمع کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
تازہ ترین پیش رفت میں پرویز الٰہی نے پنجاب کے 8 وزرا سے ملاقات کی اور انہیں زیادہ سے زیادہ اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور انہیں ووٹ دینے کے لیے راغب کرنے کا کام سونپنے کے ساتھ پنجاب میں حکومت سازی کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔
ان صوبائی وزرا میں مسلم لیگ (ق) کے حافظ عمار یاسر، پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر قانون راجا بشارت اور وزیر پبلک پروسیکیوشن چوہدری ظہیرالدین شامل تھے، جو پہلے مسلم لیگ (ق) کے رکن تھے لیکن پرویز الٰہی کی ہدایت پر 2018 کے عام انتخابات سے قبل حکمران جماعت میں شامل ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کے دیگر وزرا میں میاں اسلم اقبال، میاں محمود الرشید، راجا راشد حفیظ، سبطین خان، مراد راس اور رکن صوبائی اسمبلی وسیم خان بادوزئی شامل تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ (آج) جمعرات کی صبح 9 بجے سرکاری اوقات کار سے کچھ دیر قبل گورنر ہاؤس پہنچنے کا امکان ہے اور کہا جاتا ہے کہ چند منٹوں میں ہی اسے منظور کر لیا جائے گا۔