سچ خبریں: انصاراللہ کے وفد کا دورۂ ریاض کا ان واقعات کا تسلسل ہے جو یمن بحران کے ابتدائی سالوں سے شروع ہوئے اور اب تک جاری ہیں۔
اس سال 23 ستمبر کو انصار اللہ کا ایک وفد مسقط کے نمائندوں کے ساتھ صنعاء کے ہوائی اڈے سے ریاض کے لیے روانہ ہوا جو یمن کے بحران کے آغاز کے بعد سے انصار اللہ کا سعودی عرب پہلا دورہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: یمن میں امن کی کوششوں کے بارے میں عرب پارلیمنٹ کا بیان
صنعا سے روانگی سے قبل ایک پریس ریلیز میں انصار اللہ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ محمد عبدالسلام نے کہا کہ اس سفر کا مقصد ایک جامع سیاسی حل کے حصول کے لیے انسانی اور اقتصادی معاملات سے متعلق اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ انصار اللہ کے واضح مطالبات ہیں اور توقع ہے کہ نئے دورے کے دوران ہونے والے مذاکرات میں تیل اور گیس کی آمدنی کی ادائیگی، حدیدہ بندرگاہ کی ناکہ بندی ہٹانے، صنعا ہوائی اڈے کو دوبارہ کھولنے،انصاراللہ کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا جائے گا،اگر ان معاملات جن پر اتفاق ہو جائے تو جنگ بندی ہوسکتی ہے،بصورت دیگر متحارب فریق فوجی حل استعمال کریں گے۔
سابقہ معاہدوں کا جائزہ
1 ۔ یمن یں جنگ شروع ہونے کے چند ماہ بعد اپریل 2014 میں اقوام متحدہ نے قرارداد 2216 کی منظوری دی،اس قرارداد کے مطابق اقوام متحدہ نے جنگ میں شامل فریقوں سے تشدد کو ختم کرنے کے لیے کہا اور انصار اللہ سے بھی کہا گیا کہ وہ ان تمام علاقوں سے نکل جائے جن پر اس نے نئے تنازعات کے دوران قبضہ کر لیا ہے اورانہیں یمن کی قانونی حکومت کے کنٹورل میں دے دے نیز ایسے اقدامات کیے جائیں جو خصوصی طور پر یمنی عوام کے حق میں ہوں، تاہم حقیقت سے دور یہ امن تجویز کارآمد ثابت نہ ہو سکی۔
2 – ستمبر2019 میں نصار اللہ نے یکطرفہ طور پر سینکڑوں یمنی اور سعودی قیدیوں کو رہا کیا تاکہ قیدیوں کے تبادلے کے عمل کو تیز کیا جا سکے جس کا منصوبہ بین الاقوامی اداروں نے بنایا تھا اور وہ تہ آہستہ جاری تھا،ایک ماہ بعد انصار اللہ نے ایک امن اقدام پیش کیا، جس کی بنیاد پر اس نے سعودی سرحدوں سے 20 سے 40 کلومیٹر کی تک پیچھے ہٹنے کا عہد کیا،بدلے میں انہوں نے سعودی عرب سے کہا کہ وہ یمنی فوج کی حمایت بند کرے اور جنگ میں تباہ ہونے والے یمن کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے ضروری فنڈز فراہم کرنے کا عہد کرے، اگرچہ اس اقدام کی پیش کش انصار اللہ اور ریاض کے درمیان مذاکراتی عمل کو قائم کرنے میں ایک اہم قدم تھا، لیکن اس سے جنگ بندی نہیں ہوئی۔
3 ۔ اپریل 2021ء میں انصاراللہ کی شکست سے سعودی عرب کے مایوس ہونے کے بعد اس نے نئی شرائط کے ساتھ ایک امن اقدام پیش کیا جس کے مطابق اقوام متحدہ کے زیر کنٹرول مکمل جنگ بندی ہونی چاہیے، صنعاء کے ہوائی اڈے کو کچھ سمتوں میں دوبارہ کھول دیا جائے گا، حدیدہ بندرگاہ کی ناکہ بندی کا ایک حصہ ہٹا دیا جائے گا اور ایندھن کی سپلائی نیز یمن کے شمال میں انسانی امداد دوبارہ شروع کی جائے گی، اس اقدام نے سے جنگ بندی تو نہ ہو سکی لیکن یہ مستقبل کے معاہدوں کے لیے ایک اہم قدم ثابت ہوا۔
4 ۔ اپریل 2022ء میں عمان، اقوام متحدہ اور ریاض کی کوششوں نیز انصار اللہ کی جنگ کے خاتمے کی خواہش کی وجہ سے یمن میں دو ماہ کی جنگ بندی ہوئی، اس جنگ بندی میں جون اور اگست میں توسیع کی گئی جو 10 اکتوبر تک جاری رہی جس کے بعد کے نومبر وسط میں ایک بار پھر عمان کی ثالثی سے پہلے جیسی شرائط کے ساتھ جنگ بندی قائم ہوئی۔
5 ۔ اس سال اپریل میں انصار اللہ اور ریاض کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا اور صنعا کے ہوائی اڈے پر 13 یمنی قیدیوں کا ایک سعودی قیدی سے تبادلہ ہوا۔
6 ۔ اس سال اپریل کے آخر میں ریاض اور مسقط کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد نے صنعاء کا سفر کیا اور مذاکرات کے دوران فریقین کے درمیان جنگ بندی میں توسیع کی گئی۔
7 ۔ انصاراللہ کے وفد کا ریاض کا دورہ یمن کے بحران کے سیاسی حل کا تازہ ترین واقعہ ہے۔
یمن میں جنگ کا تناظر؛ امن یا بحران کا تسلسل؟
مختلف عوامل کی بیک وقت موجودگی، جن میں سے سبھی امن کے قیام کے محرک سمجھے جاتے ہیں، نے یمن میں بحران کے خاتمے کو پہلے سے کہیں زیادہ ممکن بنا دیا ہے،اوپیک کی حالیہ پالیسیوں کے ساتھ ساتھ آرامکو کی توسیع کے بعد، سعودی عرب تیل کی برآمدات کو جاری رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور توانائی کی منتقلی کے لیے سلامتی کو ایک ضروری شرط سمجھا جاتا ہے،اس لیے خاص طور پر گزشتہ دو سالوں میں ریاض نے اپنے علاقائی معاملات کو حل کرنے نیز اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دی ہے۔
دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ نوجوان سعودی ولی عہد یمن کی مستعفی حکومت کی حمایت کے دوران خرچ ہونے والے بھاری بجٹ کو سعودی عرب کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور اس طرح قطر اور امارات کے ساتھ مقابلے میں غیر ملکی سرمایاکاروں کو راغب کرنے پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں نیز یمن کا بحران ریاض کے لیے بہت سی اخلاقی قیمتوں کا باعث بھی ہے اس لیے کہ اس ملک کا انسانی بحران دنیا میں بے مثال ہے، حال ہی میں 98 بین الاقوامی تنظیموں نے ایک بیان میں 17 ملین سے زائد یمنی شہریوں کی مدد جاری رکھنے کے لیے فنڈز میں اضافے کا مطالبہ کیا ہے جو خوراک کی عدم تحفظ کا شکار ہیں، اس مسئلے نے یمنی شہروں کو بارودی سرنگوں اور دھماکہ خیز مواد سے آلودہ کرنے کے علاوہ، جو برسوں سے شہریوں کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، یمن کی صورت حال کو ایک مکمل تباہی میں بدل دیا ہے۔ایسے میں جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت سمیت کئی مغربی حکومتیں سعودی عرب کی طرف انگلی اٹھاتی ہیں نیز ریاض اپنی بین الاقوامی امیج بہتر کرنے کے لیے یمن کے بحران کو ختم کرنا چاہتا ہے، اس کے علاوہ تہران کے ساتھ سعودی تعلقات کو معمول پر لانے سے یمن میں امن کے قیام میں بھی مدد ملی ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب اور یمن ایک اور قدم قریب
ایک اور اہم مسئلہ جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ کامیاب ثالثی ہے جسے عمان نے بخوبی سنبھالا ہے،جہاں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے انصار اللہ کے وفد کے دورہ ریاض کا خیرمقدم کیا اور دعویٰ کیا کہ امریکہ امن کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے، انصار اللہ کے نمائندوں کا خیال ہے کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کا اس کی اممن منصوبے کی بنیاد رکھنے میں کوئی کردار نہیں ، تاہم امن مذاکرات اور اس عمل میں عمان سہولت کار بن گیا ہے،علاقائی ثالثی کے میدان میں اپنے تجربے اور ساکھ کے علاوہ عمان یمن کے ساتھ اپنی مشترکہ سرحد کی وجہ سے ایک طرف یمنی بحران کو اپنی سرحدوں کے اندر منتقل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوسری طرف یمن میں عدم استحکام کے تسلسل کو ختم کرنے سے دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں کو روکا جائے گا۔
بہر حال، ایسا لگتا ہے کہ یمن میں امن کے ڈومینو پیسز اچھی طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں اور بحران میں ملوث دونوں فریقوں کی جانب سے جنگ بندی کی طرف رجحان کو دیکھتے ہوئے، مستقل جنگ بندی کا قیام بہت بعید نہیں نظر آتا۔