سچ خبریں: ماسکو میں دہشت گردانہ حملہ ایسے موقع پر ہوا جب روس اور چین نے اپنی ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کے مسودے کو منظور کرنے سے روکا جس سے غزہ پر اسرائیل کے کنٹرول میں توسیع ہو سکتی تھی۔
عالمی برادری کی توجہ حاصل کرنے والے ایک ہولناک واقعے میں، داعش نے ماسکو میں جمعے کے تباہ کن کنسرٹ حملے جس میں 140 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، کی ذمہ داری قبول کی،اس واقعے سے سب سے نمایاں تجویز جس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ اس کا مشکوک وقت ہے، جو غزہ میں اسرائیل کی چھ ماہ سے جاری جنگ اور نسل کشی کو مسترد کرنے کے موقف کی وجہ سے ماسکو کے لیے ایک سزا معلوم ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ماسکو کے کنسرٹ ہال حادثے کے بارے میں روسی حکام کا بیان
اس بیانیے کا ثبوت اس حقیقت سے ملتا ہے کہ یہ حملہ روس اور چین کی جانب سے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں امریکی مسودہ قرارداد کی منظوری کو روکنے کے بعد کیا گیا، اس قراداد کی منظوری سے غزہ پر اسرائیل کا کنٹرول بڑھ سکتا تھا اور اسے جرائم پر ذمہ دار قرار دیے جانے سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
ماسکو کے مضافات میں پیش آنے والے خوفناک دہشت گردی کے واقعے کے بعد، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے واضح طور پر اس واقعے کو فلسطین کے مسئلے پر روس کے مؤقف اور غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ کی مذمت سے جوڑا، اپنے ابتدائی ردعمل میں انہوں نے کہا کہ ہمیں سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے اور غزہ کے عوام کی حمایت پر افسوس نہیں ہے، چاہے آپ ہم پر حملہ کریں۔
اس واقعے نے سوشل میڈیا پر بھی بحث چھیڑ دی، کیونکہ کارکنان روس کے خلاف اسرائیلی حکام کی سابقہ دھمکیوں کو یاد کرنے اور شیئر کرنے میں جلدی کر رہے تھے، یہ دھمکیاں روس کی سفارتی حمایت اور جنگ بندی کی قرارداد جاری کرنے کے لیے سلامتی کونسل میں جاری کوششوں کے ساتھ ساتھ فلسطینی دھڑوں کے درمیان قومی مفاہمت کے حصول کے لیے روس کی کوششوں کے جواب میں دی گئیں۔ ان دھمکیوں میں سب سے اہم اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی کے رکن امیر وائٹ مین کا ایک انٹرویو تھا، جس نے دو ٹوک الفاظ میں خبردار کیا تھا کہ روس کو مسئلہ فلسطین کے ساتھ اپنے تعلقات کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔
وائٹمر کی دھمکیوں کے وقت اور مواد نے ان خطرات اور ماسکو میں بعد میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے درمیان ناگزیر روابط پیدا کیے، جس نے بین الاقوامی تعلقات اور سیاسی نتائج کے ایک پیچیدہ جال کو ہوا دی۔
دوسری طرف اس المناک دہشت گرد حملے نے نہ صرف اپنے خوفناک جانی نقصان کی وجہ سے، بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے پیچیدہ نیٹ ورک کی وجہ سے بھی بہت سے سوالات اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے ، حملے کے وقت اور اس سے پہلے پیدا ہونے والی سفارتی کشیدگی کے ساتھ یہ سوالات مزید نمایاں ہو گئے۔
یہ حملہ ولادیمیر پیوٹن کی بھاری اکثریت سے انتخابی فتح کے فوراً بعد ہوا، یہ دور عام طور پر تشدد کی ایسی چونکا دینے والی کارروائیوں کے سامنے آنے کے بجائے قومی استحکام سے منسلک ہوتا ہے، یہ پس منظر، روس میں ممکنہ سکیورٹی خطرات کے بارے میں امریکہ اور برطانیہ کے سفارت خانوں کی جانب سے پہلے واضح انتباہات کے ساتھ، اس مفروضے کو بہت تقویت دیتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ تھے، ایسا لگتا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطینی کاز کی حمایت میں روس کو اس کے موقف کی سزا دینے کے فریم ورک میں ہوا ہے۔
اس سازش میں مزید اضافہ یہ ہے کہ اس حملے کے بعد شائع ہونے والے امریکی بیانات نے خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے، یہ تبصرے حملے سے 48 گھنٹے قبل امریکی سفارت خانے کی طرف سے خصوصی انتباہ کے بعد سامنے آئے ہیں جو ممکنہ خطرات کے بارے میں پیشگی آگاہی کی سطح کو ظاہر کرتا ہے۔
یاد رہے کہ اس حملے کی ذمہ داری دعش جیسی دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے، جو امریکہ اور یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات اور ان کے حکم پر عمل کرنے کے لیے مشہور ہے۔
ماسکو میں حالیہ دہشت گردانہ حملہ واضح طور پر بین الاقوامی تعلقات، ملکی سلامتی اور وسیع تر جغرافیائی سیاسی منظر نامے کے درمیان جاری اور پیچیدہ تعامل کو واضح کرتا ہے۔
اس واقعے کی وضاحت اور اس کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اس کا تعین سوائے غزہ میں اسرائیل کی جنگ اور نسل کشی کے بارے میں روس کے واضح موقف اور داعش نیز دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کا مطالعہ کیے بغیر ممکن نہیں۔
اس حملے کا وقت، جو روس اور چین کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد ہوا، ظاہر کرتا ہے کہ یہ حملہ امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے ماسکو کو سزا دینے کے مقصد کے ساتھ ایک تعزیری پہلو تھا۔
یہ دہشت گردی کی سزا فلسطینی مسائل پر اپنے موقف کو تبدیل کرنے اور اسرائیل کو اس کے جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنے اور ان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہے۔
مزید پڑھیں: ماسکو دہشت گردانہ حملے پر امریکی ردعمل کے بارے میں روس کا ردعمل
اس واقعے نے دہشت گرد گروہوں کو جغرافیائی سیاسی ٹول کے طور پر استعمال کرنے میں مغربی ممالک کے کردار کے بارے میں بھی بحث چھیڑ دی، جیسا کہ اسرائیلی حکام کی طرف سے روس کے خلاف دھمکیوں اور روس کی بین الاقوامی پوزیشن پر اثر انداز ہونے کے لیے اس طرح کے حملوں کے استعمال میں مغربی ممالک کے ملوث ہونے کے حقائق سے ظاہر ہوتا ہے۔