جنرل مشرف کی عسکری اور سیاسی زندگی پر ایک نظر

عسکری

?️

سچ خبریں:1999 میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کی آخری فوجی بغاوت کرنے والے پرویز مشرف اپنی عسکری اور سیاسی زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ اور ریٹائرمنٹ کے مشکل سالوں میں بیماری کا شکار ہونے والے جنرل پرویز مشفرف کا آج 79 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

12 اکتوبر 1999 کو ایک فوجی بغاوت کے دوران مشرف نے اس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا اور اس طرح ملک کا اعلیٰ ترین ایگزیکٹو عہدہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، اس کے بعد 20 جون 2001 کو ہونے والے ریفرنڈم کے بعد انہوں نے خود کو پاکستان کا صدر منتخب کرنے کا اعلان کیا، تاہم پاکستان کی پارلیمنٹ میں ان کے مخالف دھڑوں کی جانب سے ان کا مواخذہ کرنے اور انہیں صدر کے عہدے سے ہٹانے کی دھمکیوں کے بعد 18 اگست 2008 کو مشرف نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔

1999 میں پاکستانی فوج کے کمانڈر کی سربراہی میں بغیر کسی خون خرابے کے ہونے والی بغاوت، جس کے ذریعے اس وقت کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، نے ایک بار پھر پاکستان میں سیاسی قوتوں اور طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کو وسیع کر دیا اور سیاسی میدان میں فوج کی موجودگی کی مخالفت نے ملک کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔

مشرف 12 اگست 1943 کو یعنی پاکستان بننے سے 4 سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے ، تاہم ہندوستان پاکستان کی تقسیم کے موقع پر ان کا خاندان کراچی ہجرت کر گیا،انہوں نے 46 سال تک پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور 2008 میں عام انتخابات سے ایک سال قبل انہوں نے فوج کی کمان سے استعفیٰ دے دیا اور انتخابات کے انعقاد تک صرف صدر کے عہدے پر فائز رہے،پرویز مشرف نے 2008 میں پاکستان کی دو اہم جماعتوں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے دوبارہ میدان میں آنے اور ان کے رہنماؤں کے ملک میں جمہوری نظام کی بحالی کے سنجیدہ مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور قومی پارلیمنٹ کے مواخذے سے بچنے کے لیے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا،1999 سے 2008 تک، جب وہ پاکستان کے فوجی حکمران اور صدر تھے، شدت پسندوں کے ہاتھوں کے ہاتھوں انہیں قتل کرنے کی تین کوششوں میں بال بال بچ گئے،اس کے بعد پاکستان کے سابق فوجی حکمران خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر گئے اور لندن میں سکونت اختیار کی۔

مارچ 2013 میں وہ ملک کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے لندن میں سے واپس پاکستان آئے لیکن اس بار عدالتی مقدمات نے انہیں شرکت سے روک دیا، اور اسی سال سے اس تجربہ کار جنرل کے کیس عدالتوں میں چلنے لگے، اس کے بعد31 مارچ2013ء کو پرویز مشرف پر ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں حکومت پاکستان نے ان پر سپریم کورٹ میں غداری کے الزام میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہوں نے بغاوت کی کوشش کی اور آئین کو معطل کر دیا، ایک ایسا مسئلہ جس نے ایک بار پھر نواز شریف اور ان کی پارٹی اور پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات کو بڑھاوا دیا ، اس حد تک کہ پاکستانی فوج نے بھی اپنے سابقہ کمانڈر کو تنہا ہونے سے روکنے کے لیے کوئی کوشش باقی نہیں چھوڑی۔

جنرل پرویز مشرف کی طرف سے 1999 سے 2008 تک جو پالیسیاں اختیار کی گئیں، جن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی اتحادی اور بین الاقوامی افواج کا ساتھ دینا خاص طور پر افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف حملے کرنے کے لیے امریکی افواج کو پاکستانی فضائی اڈے فراہم کرنا شامل ہے، جس کی وجہ سے لوگ ان سے دور ہوگئے یہاں تک کہ ان کے بہت سے حامیوں نے ان کی حمایت کرنا چھوڑ دی۔ پاکستان کی ممتاز جماعتوں جیسے کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سابق فوجی حکمران کی طرف سے بغاوت کرنے اور سیاسی قوتوں کو دبانے کا الزام لگایا ہے نیز دعویٰ کیا ہے کہ فوج نے جمہوری نظام کے نفاذ کو روکا ہے، تاہم 2013ء سے 2015ء کے درمیان بہت سے اتار چڑھاؤ کے ساتھ مشرف پاکستان کے سپریم کورٹ سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اور انہوں نے 18 مارچ 2016 کو علاج کے لیے پاکستان چھوڑ دیا۔

پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا متنازعہ فیصلہ
جنوری 2020 میں پشاور کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق فوجی حکمران کو ملک کے خلاف سنگین غداری کے جرم میں سزائے موت سنائے جانے پر فوج کی جانب سے شدید ردعمل نے پاکستان میں طاقتور اداروں کے درمیان بحث کو تیز کر دیا،وقار نامی مقدمے کے جج نے17 دسمبر 2019 کو اپنے فیصلے کے پیراگراف 66 میں پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا کہ اگر مجرم (مشرف) سزا پر عمل درآمد سے پہلے مر جاتا ہے، تو اس کی لاش کو جیل بھیج دیا جائے۔ پاکستان منتقل کیا جائے، تین دن تک دارالحکومت کے مرکز میں رکھا جائے اور مجرم کی لاش کو پھانسی دی جائے،اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی فوج فوج نے اس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیا کہ فوج کے ترجمان نے فوری پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس سزا کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے جس طرح اس نے غیر ملکی خطرات کا سامنا کیا ہے، اسی طرح اس میں اندرونی اور ملک کے اندر دشمنوں کے آلۂ کاروں کے خطرات سے لڑنے کی صلاحیت بھی موجود ہے،اس کے بعد پرویز مشرف نے پشاور کی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی اور اپنی سزائے موت کو چیلنج کیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس ملک کی سپریم کورٹ نے پشاور کی عدالت کے فیصلے کو معطل کر دیا ، پاکستانی حکومت کے نمائندوں نے بھی پرویز مشرف کے ٹرائل سے متعلق عدالتی فیصلے کے پیراگراف 66 کو بین الاقوامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا اور مشرف کیس میں جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت کرنے کا فیصلہ کیا،پاکستان کی حکومت اور فوج کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کیس کا عدالتی عمل شفاف نہیں تھا اور انہیں اپنے دفاع کا حق نہیں دیا گیا اسی لیے اسلام آباد کی اس وقت کی حکومت نے اس کیس کے جج کے خلاف شکایت درج کرنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کے سابق فوجی حکمران نے اپنی عسکری اور سیاسی زندگی کے دوران بہت سے مخالفین اور حامی پیدا کیے، قبائلی علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی کمان، انتہا پسند گروہوں کے خلاف کاروائیوں بالخصوص اسلام آباد میں لال مسجد کے واقعے اور اس ملک کے مختلف خطوں میں دہشت گرد عناصر کی سرکوبی، میڈیا کی آزادی کی حمایت اور غیر سرکاری میڈیا کی سرگرمیوں کو بنیاد فراہم کرنے نے پاکستانی عوام کے ذہنوں میں ان کی شخصیت کو بے مثال بنایا، یہاں تک کہ آج تک بہت سی سیاسی اور میڈیا شخصیات پرویز مشرف کے اقدامات کی تعریف کرتی ہیں۔

دوسری طرف، پاکستان کی دیگر سیاسی قوتیں، جیسے اس ملک کے معزول وزیراعظم عمران خان، کا خیال ہے کہ پرویز مشرف کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ شامل ہونے اور افغانستان میں شرکت سے پاکستان کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا اور جب تک آج اس کے سنگین نتائج پاکستان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں، محمد نواز شریف جو بغاوت کے بعد مشرف کے حکم سے سعودی عرب جلاوطن ہوئے، 2007 میں پاکستان واپس آئے اور طویل انتظار کے بعد 2013 میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے ملک کے فوجی حکمران کے خلاف مقدمے کا آغاز کیا، پرویز مشرف کی حالت کے بارے میں ایک تبصرے میں انہوں نے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور کہا کہ میری پرویز مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے اور میں حکومت پاکستان سے ان کی وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے کا کہتا ہوں۔

مشہور خبریں۔

وزیراعظم کا سندھ میں سیلاب متاثرین کیلئے 25 ارب روپے دینے کا وعدہ

?️ 21 جون 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو منانے کی بظاہر

آصف زرداری کی جانب سے ملکی ا داروں کے خلاف زہر افشانی کی مذمت

?️ 5 نومبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) سابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ملکی اداروں کے

طالبان کے وزیر خارجہ کی قطر میں امریکی ایلچی سے ملاقات

?️ 24 مئی 2022طالبان کے وزیر خارجہ امیرخان متقی نے قطر میں امریکی ایلچی سے

نوازشریف کو بیرون ملک جانے دینے کا فیصلہ کس کا تھا

?️ 22 جنوری 2022لاہور (سچ خبریں) وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ نوازشریف

اسرائیلی حکام نے اپنے وزراء پر برطانوی حکومت کی پابندیوں پر ردعمل ظاہر کیا ہے

?️ 10 جون 2025سچ خبریں: اسرائیلی حکام نے برطانوی حکومت کی طرف سے داخلی سلامتی

صیہونیوں کے ہاتھوں ایک سال میں 953 فلسطینیوں کے مکانات تباہ

?️ 29 مارچ 2023سچ خبریں:ایک دستاویزی شماریاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت

پاکستان، چین اور افغانستان کا اجلاس آج ہوگا: وزیر خارجہ

?️ 3 جون 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ

ایشیائی ترقیاتی بینک کی بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کیلئے 50 لاکھ ڈالر کی منظوری

?️ 21 فروری 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) ایشیائی ترقیاتی بینک نے بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے