سچ خبریں:افغانستان میں اپنے مشن کے بارے میں ہیری کے متنازعہ بیان نے انگلینڈ میں بھی ہنگامہ کھڑا کر دیا اور اس ملک کے سابق کرنل ٹم کولنز نے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں بات ہیری کی ذاتی حفاظت کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔
انگلینڈ کے بادشاہ کے دوسرے بیٹے شہزادہ ہیری نے حال ہی میں اپنی متنازع یادداشت شائع کی ہے، ہیری کی ڈائری کا نام SPARE ہے ، ہیری کی یادداشتوں کے لیے اسپیئر نام کا انتخاب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ انگلینڈ کے بادشاہ کا دوسرا بیٹا ہے، برطانوی شاہی خاندان میں یہ رواج ہے کہ پہلے بچے کو ولی عہد اور دوسرے بچے کو اسپیئر کہا جاتا ہے، اسی لیے ہری نے اپنی کتاب کا نام اسپیئر رکھا ہے۔
یقیناً ہیری باضابطہ طور پر شاہی خاندان کا رکن نہیں ہے اور اس نے تین سال قبل اپنے استعفیٰ اور شاہی خاندان سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ کینیڈا اور پھر امریکہ ہجرت کر لی، تاہم اس کی یادداشتوں میں وہ حصے شامل ہیں جو شاہی خاندان کے بارے میں انکشافات کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر اس نے افغانستان میں 25 افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا، ہری نے اس بارے میں لکھا کہ افغانستان کی جنگ میں میری دوسری تعیناتی کے دوران مجھے 6 بار اس ملک بھیجا گیا اور میں نے کل 25 افراد کو قتل کیا ، تاہم مجھے اس پر نہ تو شرمندگی ہے اور نہ ہی فخر ہے۔
انہوں نے اپنی کتاب میں مزید لکھا ہے کہ جنگ کی گرمی میں، میں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ 25 لوگ (افغانستان کے) لوگوں سے ہیں جو شطرنج کے مہروں کی طرح راستے سے ہٹائے جا رہے ہیں، ٹیلی گراف اخبار نے اس بارے میں لکھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ اس 38 سالہ انگریز شہزادے نے افغانستان میں اپنی فوجی خدمات کے دوران ہلاک ہونے والے طالبان فورسز کی تعداد کا ذکر کیا ہے۔
افغانستان میں اپنے مشن کے بارے میں ہیری کے بیانات نے انگلینڈ میں بھی تنازعہ کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اس ملک کےسابق کرنل ٹم کولنز نے کہا کہ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں بات چیت ہیری کی ذاتی حفاظت کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے جبکہ لندن میں کچھ دوسرے لوگوں نے کہا کہ ہیری نے غلط طریقے سے افغانستان میں متاثرین کو شطرنج کے مہرے قرار دیا ہے، اس نے اس کہانی میں ہمارا ایک غیر انسانی چہرہ دکھایا ہے۔
برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ فوج ہیری کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تعداد کے دعوے پر تبصرہ نہیں کرے گی، اس کے علاوہ طالبان کی عبوری حکومت نے انگلستان کے بادشاہ کے بیٹے شہزادہ ہیری کے افغانستان میں فوجی ڈیوٹی کے دوران 25 افراد کی ہلاکت کے بیان کی مذمت کی اور ساتھ ہی ایک اعلیٰ افغان اہلکار نے بھی برطانویوں کو معصوم شہریوں کو قتل کرنے والی حکومت کہا۔
طالبان کے ایک سینیئر اہلکار انس حقانی نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہم نے تحقیقات کیں جس کے بعد پتہ چلا کہ ان دنوں میں صوبہ ہلمند میں طالبان کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا جس کا ذکر شہزادہ ہیری کر رہے ہیں کہ 25 مجاہدین مارے گئے، اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شہریوں اور عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔
طالبان عہدیدار نے کہا کہ یہ کہانی افغانستان میں مغربی فوج کی 20 سالہ موجودگی کے جنگی جرائم کا حصہ ہے، حالانکہ یہ ابھی تک ان کی طرف سے کیے گئے جرائم کی مکمل تصویر نہیں ہے اس لیے کہ کیے گئے جرائم اس واقعے سے کہیں زیادہ ہیں، حقانی نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر شہزادہ ہیری کی وضاحت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان کے کہنے پر دشمن کے لوگوں کو راستے سے ہٹانا شطرنج کے مہروں کو ہٹانے کے مترادف ہے لیکن میں اسے کہوں کہ گا کہ مسٹر ہیری! جن کو تم نے مارا وہ شطرنج کے مہرے نہیں بلکہ انسان تھے،سچ وہی ہے جو آپ نے فرمایا؛ ہمارے معصوم لوگ آپ کے سپاہیوں، فوجی اور سیاسی لیڈروں کے لیے شطرنج کے مہرے تھے تاہم، آپ یہ کھیل ہار گئے۔
افغانستان کے لیے مہنگی جنگ
سال 2001 سے 2020 کے دوران امریکی جنگ نے افغان عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، یہ جنگ اس ملک کے باشندوں کی معیشت، صحت عامہ، سکیورٹی اور انفراسٹرکچر کی تباہی لاکھوں افغان شہریوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے کا باعث بنی،براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق افغانستان کی موجودہ آبادی کا 92 فیصد حصہ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور 30 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔
اس کے علاوہ افغانستان کے کچھ علاقے اس وقت قحط کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ اس ملک کی کم از کم نصف آبادی یومیہ $1.90 سے کم پر زندگی گزار رہی ہے، 2017 میں، امریکی فوج نے افغانستان میں فضائی حملوں کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلی کی اور ان قوانین میں تبدیلی سے فضائی حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی ہلاکتوں میں نمایاں اضافہ ہوا،اوباما انتظامیہ کے آخری سال سے لے کر ٹرمپ انتظامیہ کے آخری سال تک کے ریکارڈ کیے گئے اعداد و شمار کے کے مطابق افغانستان میں امریکی فضائی حملوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں 330 فیصد اضافہ ہوا۔
تاہم جنگ صرف امریکی فضائی حملوں تک محدود نہیں ہے بلکہ واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغان ملیشیا گروپوں کو اسلام پسند عسکریت پسندوں سے لڑنے کے لیے مسلح کیا جس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں جن میں عام شہریوں کے غیر قانونی قتل بھی شامل ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد اس جنگ سے بچا ہوا بارودی گولہ بارود اور پچھلی جنگوں کی بارودی سرنگیں آئے دن اس ملک کے شہریوں کو زخمی اور معذور کرتی رہتی ہیں، میدان، سڑکیں اور اسکول کی عمارتیں گولہ بارود اور بارودی سرنگوں سے آلودہ ہیں، جن سے اکثر بچے زخمی ہوتے ہیں جبکہ اس جنگ کی وجہ سے اس ملک کو بہت سارے پوشیدہ زخم بھی آئے ہیں، 2009 میں، افغان وزارت صحت نے رپورٹ دی کہ دو تہائی افغان شہری ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں، اور امکان ہے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے اس تعداد میں اضافہ ہو،اس کے علاوہ جنگ کے اثرات میں پینے کے صاف پانی کی کمی، غذائیت کی کمی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی میں کمی کی وجہ سے بیماریوں کی شرح میں اضافہ بھی شامل ہے۔
قبل از وقت موت سے جڑے تقریباً تمام عوامل — غربت، غذائیت کی کمی، ناقص صفائی، صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کا فقدان، ماحولیاتی انحطاط — افغانستان میں امریکی جنگ کی وجہ سے مزید بڑھ گئے ہیں، جنگ کے متاثرین کے اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ 2001 سے اب تک افغانستان/پاکستان کے جنگی علاقوں میں لگ بھگ 243000 لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں 70000 سے زیادہ لوگ عام شہری ہیں۔