سچ خبریں:اگرچہ آل سعود کی خباثت پر مبنی خارجہ پالیسی کے بہت سے پہلوؤں کے ثبوت کے لیے مضبوط دلائل پیش کرنے کی ضرورت ہے لیکن ان میں سے ایک جز رائے عامہ کے لیے سعودی خودمختاری کے مسخ شدہ چہرے کو واضح طور پر روشن کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ بنایا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
مسئلہ فلسطین سے غداری اور اسرائیل کے ساتھ دوستی
دستیاب دستاویزات اور معلومات کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے صیہونی حکومت کی خفیہ حمایت مقبوضہ فلسطین میں اس حکومت کا تسلط جاری رہنے کا ایک اہم عنصر ہے،فلسطینی قوم کے خلاف سعودی خاندان کی سازش کے بارے میں قدیم ترین دستاویز عبدالعزیز کے ہاتھوں سعودی حکومت قیام کے زمانے کی ہے، اس پرانی دستاویز جو برطانوی نمائندے میجر جنرل سر پرسی زکریا کاکس کے ہاتھوں ایک کالم کی شکل میں لکھی گئی تھی، کی بنیاد پر سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے برطانیہ کو فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرائی تھی، اس دستاویز میں جس پر شاہ عبدالعزیز نے دستخط کیے تھے، کہا گیا ہے کہ میں، شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود آل فیصل نے، برطانیہ کے ایلچی کاکس سے ہزاروں بار کہا ہے اور تسلیم کیا ہے کہ فلسطین کو یہودیوں یا غیر یہودیوں کے حوالے کرنے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، میں کبھی برطانوی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
چنانچہ فلسطین، شام اور لبنان سمیت مختلف خطوں میں امت مسلمہ کے خلاف صیہونی حکومت کے مسلسل نسل پرستانہ اقدامات کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ اس حکومت کا مشترکہ تعاون ایک نئے دور میں داخل ہو گیا ہے،اگرچہ سعودی حکام اب بھی رائے عامہ کے خوف کے باعث ان تعلقات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن صیہونی مسائل کا تقریباً کوئی بھی سیاستدان یا ماہر ایسا نہیں ہے جو صیہونی سیاسی دھاروں اور صیہونی حکومت کی آل سعود کے ساتھ ہم آہنگی کو تسلیم نہ کرے،وہ اس اقدام کو اسرائیل کے لیے ایک تاریخی اور اسٹریٹجک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سعودی عرب کی جانب سے نیتن یاہو کی جیت کا خیر مقدم
سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی طرف دن بہ دن مزید اقدامات کر رہا ہے اور ایسے اقدامات کر رہا ہے جن کا مقصد سعودی عرب اور خلیج فارس کے دیگر عرب ممالک میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سیاسی اور عوامی ماحول کو تیار کرنا ہے،یاد رہے کہ سعودی عرب میں صیہونیوں کو خوش کرنے کے لیے تحریک حماس کے متعدد قیدیوں کے خلاف ریاض کا سخت رویہ، جو جھوٹے بہانوں میں آل سعود کی جیلوں میں بند ہیں، روز بروز سخت اور غیر معقول ہوتا جا رہا ہے۔
نیوم صیہونی منصوبہ
جو کچھ کہا گیا اس کے علاوہ، نیوم پروجیکٹ ان جہتوں میں سے ایک ہے جو ریاض اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل میں سمجھا جاتا ہے،نیوم کے نام سے مشہور خیالی منصوبے کے بارے میں سعودی عرب کے میڈیا پروپیگنڈے سے قطع نظر جس پر 500 بلین ڈالر کی سرکاری اور نجی سرمایہ کاری کی جانی تھی، بہت سے ماہرین اس منصوبے کو صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے سیاسی، اقتصادی اور سکیورٹی تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے ایک دروازے طور پر دیکھتے ہیں، اس حقیقت کے علاوہ کہ مذکورہ منصوبہ علاقے کے اسٹریٹجک مقامات کو استعمال کرنے میں صیہونی حکومت کی بہت سی عظیم حکمت عملیوں کے مطابق ہے، سعودی عرب اور صیہونی حکومت، اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان پہلی بار ہونے والے مذاکرات کے عنوان سے اقتصادی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں، جنہیں ٹائمز اخبار نے متنازعہ قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت کی کابینہ اسلام کے مرکز اسلام کے دو مقدس شہروں کے محافظین کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی کوش کر رہی ہے۔
صہیونی اخبار یروشلم پوسٹ نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ سعودی سفارت کاروں اور اسرائیلی تاجروں کے درمیان اقتصادی تعاون کے لیے تجارتی مذاکرات کے حوالے سے پیغامات کا تبادلہ ہوا، اس کے علاوہ صیہونی حکومت کی بعض سکیورٹی کمپنیوں نے اس منصوبے کے لیے اپنے سائبر اسپیس سکیورٹی آلات سعودی حکومت کو فروخت کیے ہیں۔
صیہونیت کے شکست خوردہ گھوڑے پر ریاض کی شرط بندی
صیہونیوں کے قبضے میں فلسطین اور القدس شریف کی صورتحال اور فلسطینی سرزمین پر ان کے بڑھتے ہوئے جرائم کو نظر انداز کرتے ہوئے سعودی رہنما تل ابیب کے ساتھ کھلے عام تعلقات استوار کر رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ صیہونی سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے اور اپنے مفادات پورے ہونے تک ہی انہیں اپنا اچھا رخ دکھائیں گے کیوں کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت اس حیقیت کی گواہ ہے۔
آل سعود کے حکام شاید یہ نہیں جانتے کہ ریاض کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات میں خرابی کا کٹھ پتلی شو اور ایران کو تل ابیب اور ریاض کا مشترکہ دشمن قرار دینا انہیں دوستی اور ہم آہنگی کے جال میں پھنسانے کے لیے کیا گیا تھا، صیہونی حکومت کے ساتھ۔ علاقائی تعلقات کے حوالے سے ان کے سطحی تجزیے میں ایک اور مسئلہ جو نظر انداز کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کا تاریخی ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے کبھی بھی اپنے کسی مسلمان اتحادی کے ساتھ وفاداری نہیں کی اور جب بھی اس کے مفادات کا تقاضا پورا ہوا انہوں نے دوسروں کو کمزور اور ختم کیا ہے،صیہونی یہودیت کی نسل پرستانہ فطرت اور مسلمانوں سے ان کی نفرت کبھی بھی مسلم جماعتوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات کو ان اتحادیوں کی میعاد ختم ہونے سے آگے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے گی۔