سچ خبریں:عرب دنیا کے مشہور تجزیہ نگار نے ایک مصری فوجی کے ہاتھوں صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے اسے شہادت طلبانہ کاروائی قرار دیا اور لکھا کہ مزاحمت روز بروز پھیل رہی ہے جبکہ غاصب حکومت ہر طرف مزاحمتی ہتھیاروں اور میزائلوں میں گھری ہوئی ہے۔
عبدالباری عطوان نے رائے الیوم کے ایک تجزیے میں مصری فوجی کے ہاتھوں متعدد صیہونیوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ مصر اور اسرائیل کے سرکاری بیانات کو ایک طرف رکھتے ہوئے کھل کر کہا جا سکتا ہے کہ مصری فوجی نے مقبوضہ فلسطین کے ساتھ اپنے ملک کی سرحدوں کے قریب جو آپریشن کیا جس میں تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور دو زخمی ہوئے، یہ ایک شہادت طلبانہ آپریشن تھا جو 110 ملین سے زائد مصریوں اور 500 ملین عربوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے،یہ خالصتاً قوم پرستانہ فعل تھا جس کا منشیات کی اسمگلنگ سے کوئی تعلق نہیں۔
عطوان نے مزید لکھا کہ مصری فوجی کی یہ کاروائی اس کے قومی جذبے اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامت ہے جو صیہونی فوجیوں کی فائرنگ یا فضائی حملوں میں روزانہ شہید ہو رہے ہیں نیز ان فلسطینیوں کے ساتھ بھی یکجہتی کی علامت ہے جن کے زیتون کے درخت جڑوں سے اکھاڑ دیے جاتے ہیں،گھر تباہ کر دیے جاتے ہیں،ان شہداء کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے جن کی لاشیں بھی ان کے اہلخانہ کے حوالے نہیں کی جاتیں،ان قیدیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامت کے طور پر جن کی توہین کی جاتی ہے، اس مصری فوجی نے اپنے ملک کی سرحدوں پر پرتشدد حملہ کرنے والی اسرائیلی گشت کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا قومی فرض ادا کیا ہے،کیا صیہونی فوجیوں، کمانڈروں اور سیاسی رہنماوں کو معلوم نہیں کہ پرانا اور نیا معمول پر آنے والا معاہدہ انہیں کبھی بھی سلامتی اور استحکام نہیں عطا کر سکے گا، یہ معاہدے عوام کو کبھی دھوکہ نہیں دیں گے اور ان کے عقائد کو تبدیل نہیں کریں گے کیونکہ یہ معاہدے طاقت اور پابندیوں اور انہیں بھوکے رکھنے کی پالیسی کے ذریعے نافذ کیے جاتے ہیں جو لوگوں کے عقائد کو متاثر نہیں کرتے۔
عطوان نے مزید لکھا کہ اسرائیلی ایک وفادار اور دیندار مصری سپاہی سے کیا توقع رکھتے ہیں جو مسجد اقصیٰ ، نابلس، جنین، طولکرم اور غزہ میں اپنے بھائیوں پر ہر روز صیہونی وحشیانہ حملوں کو دیکھتا ہے جہاں صیہونی میزائل بچوں اور بڑوں یا عورتوں میں فرق نہیں کرتے،سب کو شہید کرتے ہیں، اسرائیلی اس مصری فوجی کو تخریب کار سمجھتے ہیں جو کہ گستاخی کی انتہا ہے،کیا وطن کا دفاع تخریب کاری ہے،کیا قابضین کے تلے دبے ہوئے بھوکے بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی تخریب کاری ہے؟ کیا دوسروں کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور بستیاں بنانا اور لوگوں کو بے گھر کرنا تہذیب کی علامت ہے؟ انہوں نے لکھا کہ یہ آپریشن جسے مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں لاکھوں افراد نے سراہا، مقبوضہ علاقوں میں صیہونی جارحیت اور قتل عام نیز شام پر روزانہ حملوں اور مزاحمتی کمانڈروں کے قتل کا ردعمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اسرائیلیوں سے کہتے ہیں کہ کنکریٹ کی دیوار یا خاردار تاریں تعمیر کرنے سے آپ کو تحفظ نہیں ملے گا اور نہ ہی آپ کے قبضے کی زندگی کو طول ملے گا۔ وہ وقت جب تم چند گھنٹوں میں جنگ جیت جایا کرتے تھے، گزر گیا اور واپس نہیں آ سکتا، راکٹ، ڈرون اور مارٹر کے دور میں دیواریں بنانا خود فریبی کی انتہا ہے، مزاحمت روز بروز پھیل رہی ہے اور شہادت کا جذبہ رکھتی ہے۔
عطوان نے مصری فوج کے صیہونی حکومت کو دشمن تصور کرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ حکومتیں سمجھوتہ کریں لیکن قومیں کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گی، خاص طور پر مصری عوام کیونکہ یہ سمجھوتہ ان کے لیے تباہی اور بھوک ہی لائے گا، انہیں معلوم ہے کہ مصر، اردن، سوڈان اور مغرب کے حالات سمجھوتے سے پہلے بہت بہتر تھے نیز قابض حکومت شمال، جنوب، مشرق اور مغرب ہر طرف سے مزاحمتی ہتھیاروں اور میزائلوں میں گھری ہوئی ہے، حتیٰ کہ سمندر بھی اس کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہے، اور ہوائی اڈے بھی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں،صیف القدس اور غزہ کی حالیہ جنگ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے، شاید کئی محاذوں پر جنگ کے لیے شامی فوج کی پریڈ اس بات کو سمجھا رہی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ عطوان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ سینا مزاحمت میں واپس آگیا ہے خاص طور پر چونکہ اس کے پاس ایسا شاندار ٹریک ریکارڈ ہے، ہو سکتا ہے کہ قابضین کے خلاف لڑنے والے اس نامعلوم سپاہی نے برسوں کی خاموشی کے بعد پہلی گولی چلائی ہو، تاہم یہ آخری گولی نہیں ہوگی۔