سچ خبریں: ایک عرب محقق نے اپنے ایک کالم میں صیہونیت کے نظریے سے جڑی نسل کشی کی چند اہم خصوصیات پر بحث کی اور اس بات پر زور دیا کہ صہیونی ان نظریات کو فلسطینیوں کے وجود کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
عرب محقق فارس عودہ نے عالمی صہیونیت کے خطرناک افکار و نظریات سے متعلق ایک کالم میں لکھا کہ مئی 2009 میں یہودی امریکی میگزین مومنٹ نے صہیونی ربی مانیس فریڈمین کے ساتھ فلسطینی یہودیوں اور ان کے عرب پڑوسیوں کے درمیان تعامل کے صحیح طریقے کے حوالے سے گفتگو کا اہتمام کیا،اس انٹرویو میں فریڈمین نے واضح طور پر کہا کہ مجھے مغربی اخلاقیات کو بالکل بھی نہیں مانتا کہ شہریوں اور بچوں کو قتل نہ کرنا، قبرستانوں پر بمباری نہ کرنا، دوسرے فریق کی طرف گولی چلانے سے پہلے گولی نہ چلانا، مقدس مقامات کو تباہ نہ کرنا وغیرہ جبکہ جنگ کا سب سے مطلوبہ اخلاقی طریقہ وہی ہے جسے یہودی لوگ اپناتے ہیں جیسے دشمنوں کے مقدس مقامات کو تباہ کرنا ،ان کے مردوں، عورتوں، بچوں یہاں تک کہ ان کے مویشیوں کو ذبح کرنا،فلسطینیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کا یہی واحد راستہ ہے،یہ عقیدہ، جو تورات کی اقدار پر مبنی ہے، ایسی تباہ کن انسانوں کی بنائی ہوئی اخلاقیات سے دوچار قوموں کو بچانے کے لیے مینارہ نور کی طرح ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں کی نسل کشی میں امریکہ کا کردار
فریڈمین کا مضحکہ خیز بیان اس لیے ہے کہ وہ فلسطینیوں کو یہودی مدینہ فاضلۂ کے وجود میں آنے کی راہ میں ایک رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں،وہ اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کر رہے بلکہ ایک مذہبی فریضہ اور تورات کی مقدس تعلیمات کو بیان کر رہے ہیں جنہیں وہ نظر انداز کرنا ناممکن سمجھتے ہیں، فریڈمین کا موقف وہی موقف ہے جس کی بنیاد پر یہودیوں نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا اور فلسطینی عوام کے خلاف طرح طرح کی دہشت گردی کی لہٰذا صہیونی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ مجرمانہ کاروائیاں جیسے قتل عام، نسلی تطہیر، لوگوں کی جبری نقل مکانی وغیرہ کو سمجھنے کے لیے، جنہیں اسرائیلی جائز سمجھتے ہیں، ہمیں اس کی جڑوں کو تلاش کرنا ہوگا۔
عمالیق
اردن کی پیٹرا یونیورسٹی میں تاریخ کے سابق پروفیسر ڈاکٹر عصام سخنینی اپنی کتاب Holy Crime میں لکھتے ہیں کہ صیہونیت کا فلسطین میں اپنے جرائم کو جائز قرار دینے کا نظریہ تورات اور اسفار پر مبنی ہے، اگرچہ صیہونی تحریک کی سیکولر بنیادوں اور تورات پر ان کے انحصار کے درمیان واضح تصادم ہے لیکن صہیونیوں نے اپنے قبضے کے مقاصد کی تکمیل کے لیے یہودی شریعت کو اپنے اعمال کے جواز کے طور پر استعمال کیا۔
سخنینی کا خیال ہے کہ صہیونی نسل کشی تورات کی علامتوں اور خرافات سے ماخوذ ہے،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ آج اسرائیل اپنے اقدامات کا سرچشمہ ان کے اجداد کا طریقہ کار ہے،حیفا یونیورسٹی کے پروفیسر بیت ہلمی بھی سخنینی کے اس دعوے کی تصدیق دوسرے طریقے سے کرتے ہیں کہ اسرائیل بائبل کو ایک تاریخی منبع سمجھتا ہے جس کے واقعات کو دہرانا ضروری ہے، اس بنا پر جناب ابراہیم نبی وہ پہلے شخص ہیں جن سے یہوواہ (توریت میں خدا کا نام) نے فلسطین کی تاریخی سرزمین کا وعدہ کیا تھا ، اس وعدے کے مطابق یہ سرزمین ان کے فرزند اسحاق اور پھر یعقوب اور ان کی اولاد بنی اسرائیل کے پاس جائے گی۔
اگر ہم تورات کو صہیونی تحریک کے مذہبی و تاریخی منبع کے طور پر دیکھیں تو دوسرے ممالک کے خلاف صیہونیوں کی جنگی حکمت عملی بھی اسی پر مبنی ہے،سفر تثنیہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب تم جنگ کے ارادے سے کسی شہر کا رخ کرو تو جب اس کے قریب پہنچو تو اس کے لوگوں کو امن کی دعوت دو،اگر وہ آپ کی بات مان جائیں اور آپ کے لیے راستہ کھول دیں تو وہ سب غلام ہیں اور آپ کے قبضے میں ہیں لیکن اگر وہ نیام سے تلوار نکال لیں تو تم ان کا محاصرہ کر کے ان کے مردوں کو مار ڈالو ،ان کی عورتیں، بچے، مویشی اور ہر چیز غنیمت ہے جو اللہ نے آپ کو عطا کی ہے۔
عبرانی مسائل کے ایک تجربہ کار محقق ڈاکٹر رشاد الشامی کا خیال ہے کہ تورات اسرائیلی رہنماؤں کے ہاتھ میں محض ایک بہانہ ہے تاکہ وحی اور شرعی قانون کے لیبل سے فلسطین میں اسرائیل کی توسیع کو جائز قرار دیا جا سکے،ان کے مطابق ہر جرم شریعت اور الٰہی قانون کے سائے میں مختلف رنگ اختیار کرتا ہے کیونکہ مقصد خدا کے وعدے کو پورا کرنا ہےتورات سے مزید دریافت کرتے ہوئے ہم سفر یشوع کی طرف چلتے ہیں جس میں یہودیوں کے مطابق، جب انہوں نے سرزمین کنعان (موجودہ فلسطین) پر حملہ کیا، تو انہوں نے شہروں میں کسی جاندار کو زندہ نہیں چھوڑا، اریحا کی فتح کے بعد، تمام مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں یہاں تک کہ گائے اور بھیڑوں جیسے جانوروں کو ذبح کیا گیا اور شہر کو زمین بوس کر دیا گیا۔
تورات میں یشوع بن نوع کے قتل عام کے بارے میں بیان کردہ کہانیوں سے قطع نظر، عصام سخنینی، یشوع کو صیہونیت کے رہنماؤں کے لیے سب سے نمایاں اور متاثر کن شخصیت سمجھتے ہیں،اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بن گورین نے ایک مشہور جملے میں کہا کہ یشوع بن نوع کی شخصیت کو اسرائیلی فوج کے ڈھانچے میں جاری رکھا جانا چاہیے،یہ خرافات پر مبنی رائے صرف اسرائیل کی حکمرانی اور فوجی مسائل تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ ان کے تعلیمی نظام میں کئی دہائیوں سے داخل ہو چکی ہے،تل ابیب یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر جارج تمارین نے اسرائیلی اسکولوں میں 1000 لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ایک سروے کیا تاکہ اسرائیلی ہائی اسکول کے طلباء کی ذہنیت پر یشوع کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی سے متعلق بیانات کی تاثیر کا اندازہ لگایا جاسکے،اس سروے کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 80% اسرائیلی طلباء کا ماننا ہے کہ اریحا اور مکیدہ میں یشوع نے جو ہلاکتیں کیں وہ مکمل طور پر درست تھیں اور انہیں کبھی بھی افسوسناک واقعہ نہیں سمجھا گیا نیز 38% طلباء کا خیال ہے کہ آج بھی اسرائیلی فوج کو تمام فلسطینی شہروں اور دیہاتوں میں بالکل وہی قتل کرنا چاہیے۔
یشوع کے افسانے کے علاوہ، ایک اور علامت جو صہیونی کی جانب سے نسل کشی کے خیال کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ اثر رکھتی ہے، عمالیق کا افسانہ ہے جو صیہونیوں کی زبان اور تحریروں میں ہمیشہ موجود رہتا ہے،عمالیق فلسطینی عربوں کے ساتھ تعامل میں صہیونی سوچ کی ایک مثال ہے،بلاشبہ تورات کی دستاویز یا کسی اور تاریخی ماخذ سے عمالیق کے افسانے پر شک کیا گیا ہے اور اس کی وجہ سے حوالہ جات میں تنازعات پیدا ہوئے ہیں،کچھ لوگ ان کی زندگی کے دور کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور سے منسوب کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان کے پوتے عیسو بن اسحاق کے زمانے سے منسوب کرتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عمالیق کے بیٹا ہیں۔
عمالیقیوں نے، جو جزیرہ نما سیناء اور کنعان کی سرزمین کے ایک حصے میں رہتے تھے، اسرائیل کے نبیوں کے ساتھ بہت سی جنگیں کیں،یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آخر کار خداوند نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اس قوم کو مٹا دیں،سموئیل کے خدا کے نبی کے طور پر چنے جانے کے بعد، یہوواہ کی طرف سے ایک حکم آیا کہ عمالیق کا کوئی جاندار زندہ نہیں رہنا چاہیے اس طرح عمالیق بنی اسرائیل کے ساتھ تنازعہ کی ایک بہترین مثال بن گئے، اسرائیل کی بار ایلان یونیورسٹی میں جرائم کے پروفیسر جیرالڈ کرومر کا خیال ہے کہ عمالیق کو یہودی روایات میں مطلق برائی کے طور پر جانا جاتا ہے لہذا، ربی یہاں تک کہ عام آدمی بھی ان لوگوں کے لیے لفظ عمالیق استعمال کرتے ہیں جنہیں اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے،کچھ اسرائیلی امین الحسینی (قدس کے سابق مفتی)، جمال عبدالناصر، صدام حسین، حتیٰ کہ یاسر عرفات جیسی شخصیات کے لیے لفظ عمالیق استعمال کرتے ہیں،غور طلب ہے کہ جعلی صہیونی حکومت کے ڈھانچے میں مانیٹرنگ دی کلر نامی تنظیم موجود ہے جس کا مقصد فلسطینی مجاہدین کے ٹھکانوں کی نگرانی کرنا اور انہیں عدالت میں پہنچانا،اس تنظیم کا نصب العین بہت دلچسپ ہے: عمالیق کو یاد رکھیں۔
عمالیق کے افسانے پر صیہونیوں کا زور صرف جدید لوگوں کو اس بدقسمت قوم کے انجام کی یاد دلانے کے لیے ہے جو عمالیق کی طرح ان کی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر میں رکاوٹ بن گئے ہیں،بار ایلان یونیورسٹی کے ربی یسرائیل ہس نے کھل کر کہا ہے کہ آج کے عمالیقیوں یعنی فلسطینیوں کے لیے رواداری اور ہمدردی کی اجازت نہیں ہے؛ ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہنا چاہیے، یہاں تک کہ نومولود بچے بھی نہیں۔
لوگوں کے بغیر ایک زمین کے بغیر لوگوں کے لئے
ڈاکٹر اکرم حجازی نے اپنی کتاب "سوشل روٹس آف دی النکبہ” میں صہیونی پروپیگنڈوں میں سے کچھ کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنے قبضے کے منصوبے کو جائز بنانے کے لیے استعمال کیے ہیں،ان جھوٹوں میں سے ایک کہ تھیوڈور ہرزل اور اسرائیل زنگ وِل جیسے سرخیل صہیونی رہنما جس کی آگ میں سانس لے رہے ہیں، مشہور تجویز "زمین کے بغیر لوگوں کے لیے لوگوں کے بغیر زمین” ہے۔ اس تناظر میں عصام سخنینی کہتے ہیں کہ اگر ہم صیہونیت کے منصوبے کو ایک جملے میں خلاصہ کرنا چاہیں تو یوں کہا جا سکتا ہے: دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو اس سرزمین پر جمع کرنا اور واپس لوٹانا جو انہیں اپنے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی ہے،اس بیانیے میں صیہونیت کے نظریے کے تین اہم تاریخی اجزا پوشیدہ ہیں:
1۔ یہودیوں کے تاریخی مصائب اور مختلف ممالک میں ان کی مشکلات 2۔ وہ زمین جس کا بائبل میں وعدہ کیا گیا ہے۔
3۔ وعدہ شدہ زمین پر واپس جانا جو ماورائی مرضی
اور اس کی موجودگی پر منحصر ہے۔
لیکن یہ بیانیہ صرف ایک طرح سے مکمل ہو سکتا تھا اور وہ تھا وعدہ شدہ زمین کو اس کے باشندوں سے خالی کرنا، اس کے مطابق صہیونی لیڈروں کو فریب کاری کے وعدے کی تکمیل کے لیے فلسطین کو ایک غیر آباد سرزمین میں تبدیل کرنا تھا،ہرزل نے اپنی یادداشتوں میں ذکر کیا ہے کہ کہ پہلا قدم زمین کو خالی کرنا ہے، جو دو حکمت عملیوں پر مبنی ہے:
1۔ امیر لوگوں کو بھاری رقوم دے کر ان کی زمینوں پر انہیں قبضہ کرنا تاکہ وہ لالچ میں آجائیں۔
2۔ غریبوں کو پڑوسی ممالک میں ہجرت کرنے کی ترغیب دینا تاکہ زیادہ اجرت کے ساتھ کام کے بہتر مواقع حاصل کر سکیں۔
ایک اور صہیونی رہنما آرتھر رابن نے بھی ایسا ہی ایک منصوبہ ڈیزائن کیا، 1914 میں اس نے اپنی حکمت عملی کا اظہار کچھ یوں کیا کہ پہلا قدم شام کے حمص اور حلب کے علاقے میں زمین خریدنا اور پھر اسے کم قیمت پر فلسطینی عوام کو فروخت کرنا ہے،یقیناً اس سے پہلے ہمیں فلسطینیوں کو بہکا کر یا ضرورت پڑنے پر جبر کے ذریعے ہجرت ہر مجبور کرنا ہے،یہی منصوبہ دوبارہ 1930 میں جیوش نیشنل ایجنسی کی انتظامی کمیٹی کے سربراہ فیلکس واربرگ نے تجویز کیا ،ایک خط میں انہوں نے فلسطین میں برطانوی یہودیوں کے نمائندے سر جان چانسلر کو تجویز پیش کی کہ وہ صہیونیوں کی مدد کریں کہ وہ اردن کے مشرق میں بہترین اور پرکشش زمین خرید کر فلسطینی کسانوں کو دے دیں تاکہ ان کی امیگریشن کا زمینہ فراہم ہو سکے۔
فلسطینی سرزمین کو اس کے باشندوں سے خالی کرانے میں تین صہیونی منصوبوں کی ناکامی کا مطلب وطن کے منصوبے کے پہلے مقصد کی ناکامی ہے، اب متبادل راستے کی باری تھی جو جبری نقل مکانی اور قتل عام پر مبنی تھا،1937 میں بن گورین فلسطینی عوام کے لیے اپنی حکمت عملی کو واضح طور پر بیان کرتے ہیں: میں ان لوگوں کی جبری ہجرت کی حمایت کرتا ہوں اور مجھے اس میں کوئی غیر اخلاقی چیز نظر نہیں آتی،اس بیان کی تکمیل النکبہ سے متعلق واقعات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
نسل کشی
النکبہ سے متعلق تحقیق میں اسے نسل کشی کا نام دینے یا نہ دینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے،بیروت کی امریکن یونیورسٹی کی پروفیسر ساریٰ حنفی النکبہ کو ایک جگہ کا قتل سمجھتی ہیں،ان کا خیال ہے کہ النکبہ کو فلسطینیوں کی اپنی زمینوں سے رضاکارانہ ہجرت سمجھا جاتا تھا،لیکن یہ جبری ہجرت میں بدل گیا،دوسری جانب نسل کشی کے مطالعے کے ماہر مارٹن شا النکبہ کو حقیقی نسل کشی سمجھتے ہیں، سرزمین کا مطلب زندگی ہے یا کم از کم زندگی کے لیے ضروری ہے اس لیے سرزمین کی جنگ وہی ہے جو زندگی کی جنگ ہے،اس تعریف کے ساتھ، نسل کشی کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ معاشرے کے تمام افراد کو قتل کر دیا جائے، بلکہ لوگوں کے ایک حصے کا قتل اور اس کے نتیجے میں زندہ بچ جانے والوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالنااور اگلے مرحلے میں انہیں منتقل کر کے انہیں بے گھر کر دینا ہے لہذا النکبہ کے بارے میں نسل کشی کی اصطلاح کی جا سکتی ہے۔
النکبہ کے نتائج پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس انسانی المیے کو پیدا کرنے کے لیے واقعات دو سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں، پہلی قسم جگہوں کی تباہی ہے،ولید الخالدی نے النکبہ کے دوران تباہ ہونے والے دیہاتوں کے بارے میں ایک تحقیق میں جو تخمینہ لگایا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 418 دیہات تباہ ہوئے جو فلسطینی دیہات کا تقریباً نصف ہے،الخالدی کی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے 292 دیہاتوں کو زمین بوس کردیا، ان میں کسی مکان کا نام و نشان تک نہیں رہا،90 دیہات کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا، 7 دیہاتوں پر قبضہ کر لیا، صرف 8 گاؤں ہی اسرائیلی کرینوں اور ٹینکوں سے بچ پائے لیکن دوسرے واقعات جو رونما ہوئے وہ اپنی نوعیت میں منفرد ہیں،ہاگانا فوجی گروپ نے فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کیا اور وحشیانہ اجتماعی قتل عام کیا، اسرائیلی فوجی تاریخ دان Arieh Yitzhakhi کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے 1948 سے 1949 کے درمیان فلسطین کے مختلف علاقوں میں 120 قتل عام کیے جن میں سے ہر ایک میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
ایک دوسرے سے جڑے ہوئے دو واقعات
تاریخ کی کتابیں فلسطین میں اسرائیلی جرائم کی تفصیلات سے بھری پڑی ہیں،بہت سے ذرائع یتزاک کے اعدادوشمار اور اسرائیلی جرائم کی حقیقت کے درمیان شدید تضاد پر متفق ہیں،مثال کے طور پر فلسطین کے انسائیکلو پیڈیا نے اپریل 1948 میں دیر یاسین کے قتل عام میں فلسطینی شہداء کی تعداد 250 بتائی ہے، جن میں زیادہ تر بوڑھے، خواتین اور بچے ہیں۔ ہمیں طنطورہ میں بھی ایسا ہی جرم نظر آتا ہے جہاں اسرائیلیوں نے مردوں کو عورتوں اور بچوں سے الگ کرنے کے بعد ان میں سے 95 کو گولی مار دی صرف اس وجہ سے کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ باغیوں نے ہتھیاروں کہاں چھپا رکھے ہیں لیکن وہ ہمیں بتا نہیں رہے ہیں، سینکڑوں نہیں تو درجنوں فلسطینی دیہاتوں نے ایسے جرائم کا مزہ چکھا ہے، تاہم یتزاخی خود تسلیم کرتے ہیں کہ زیادہ تر فلسطینی دیہاتوں نے کسی نہ کسی طریقے سے بڑے پیمانے پر قتل عام یا قتل عام دیکھا ہے، Uri Milstein ایک اور اسرائیلی مورخ ہے جس کا خیال ہے کہ 1948 میں کوئی تنازعہ نہیں مگر یہ کہ وہ ایک بہت بڑے اور خوفناک قتل عام پر ختم ہوا نہ ہوا ہو،غور طلب ہے کہ ان میں سے بہت سے جرائم اس وقت ہوئے جب کہ فلسطینی دیہاتیوں نے ہتھیار ڈالنے کی علامت کے طور پر سفید جھنڈا لہرایا، یہاں تک کہا جاتا ہے کہ کچھ دیہاتی صہیونیوں سے محفوظ رہنے کے لیے پانی اور خوراک لے کر فوجیوں کے استقبال کے لیے گئے لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ وہ اپنے قاتلوں کو طاقت فراہم کر رہے ہیں۔
ان تمام صورتوں کے نتیجے میں صرف عربوں اور صہیونیوں کے درمیان پہلی جنگ نے تقریباً 750000 فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا تاکہ اس سرزمین کا حشر وہی ہو جائے جس کی کہانی ہرزل سنا ر رہا تھا: زمین بغیر لوگوں کے لیے لوگوں کے بغیر زمین ،عصام سخنینی اس نکتے کو کام کی انتہا نہیں سمجھتے بلکہ ایک طرف جنگ بندی لائن کے ساتھ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر اور ساتھ ہی ساتھ صہیونی لیڈروں کی طرف سے ان تمام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جانا جو سرحد پار کرتے ہیں، دوسری طرف فلسطینی نسل کشی کا ایک نئا باب کھولنا ابھی باقی ہے۔
مزید پڑھیں: فلسطینیوں کی نسل کشی کن کے اشاروں پر ہو رہی ہے؟ عمران خان کیا کہتے ہیں؟
النکبہ کو نسل کشی کے مکمل مظہر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، گھروں کی تباہی ، تقریباً آدھے فلسطینی دیہاتوں کی تباہی، تقریباً 13 ہزار افراد کا قتل، سماجی تانے بانے کی تباہی، نقشوں سے فلسطین کا نام مٹا دینا، فلسطینی سیاسی خودمختاری کے قیام کے کسی بھی امکان کو ختم کرنا ، اس سرزمین کے باشندوں کو بے گھر کرنا اور ان کی واپسی کو روکنا ایک طرح سے النکبہ عمالیق کے افسانے کی ترقی کا سب سے زیادہ وحشیانہ اور مکروہ انداز رہا ہے،عمالیق، جن کی تباہی خُدا کے چنے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں ناگزیر تھی، ہے اور رہے گی۔