سچ خبریں:علاقائی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ اگرچہ فرانسیسی صدر کے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے دورے کی بنیادی وجہ عمومی طور پر اقتصادی ہے، لیکن پیرس لبنان میں اپنے اقدام کو ٹوٹنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس لیے عربوں کے ساتھ بیروت کے تعلقات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
علاقائی امور کے ماہر علی اصغر زرگر نے فرانسیسی صدر کے خلیج فارس ممالک کے دورے کے موقع پر لبنان کے وزیر اطلاعات کے استعفیٰ اور بیروت نیز خطے میں عرب ریاستوں کے درمیان کشیدگی کے حل کے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے لبنانی وزیر اطلاعات جارج قرداحی کے استعفی کا مشاہدہ کیا ہے جسے کچھ لوگ بیروت پر سعودی اثر و رسوخ اور دباؤ کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودیوں اور خلیج فارس کے دیگر ممالک کا اثر و رسوخ لبنان وغیرہ میں کئی سالوں سے ظاہر تھا اور لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد الحریری کے دور میں بھی ہم نے اس اثر و رسوخ کے اعمال کا مشاہدہ کیا جہاں سعودی عرب کے دورے کے دوران الحریری کو سعودی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھاجس کا مطلب بیروت میں سعودیوں کا اثر و رسوخ تھا، کی وجہ سے لبنان کی صورت حال تھی۔
انہوں نے مزید کہاکہ یہ رجحان اب بھی موجود ہے اور ہم نے دیکھا کہ لبنانی حکومت کے وزیر اطلاعات کو یمن کے معاملے میں سعودی عرب کے رویے پر تنقید کی وجہ سے استعفیٰ تک جانا پڑا اور حال ہی میں انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے،اس بنیاد پر میں سمجھتا ہوں کہ قرداحی جیسے لوگوں کا اخراج پہلا قدم ہو سکتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ سعودی عرب متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین وغیرہ جیسے ممالک سے مل کر مزید آگے بڑھے جبکہ کچھ دوسروں کا خیال ہے کہ اس امکان بہت کم ہے۔
واضح رہے کہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے قراداحی کو ہٹانے میں تو کامیابی حاصل کر لی ہے تاہم اس بات کا امکان کم ہے کہ وہ موجودہ صورتحال سے آگے بڑھنا چاہے گا اس لیے کہ وہ صرف سیاسی ہتھکنڈوں اور میڈیا کا استعمال کرکے لبنانی عوام کو سزا دینا چاہتا ہے اور یہ دباؤ کام آیا، تاہم اس کے جاری رہنے کی توقع نہیں ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ فرانسیسی صدر کے یو اے ای، قطر اور سعودی عرب کے دورے کے بارے میں دیگر تجزیہ کار اور ماہرین کیا کہتے ہیں۔