سچ خبریں:سیاسی ادب میں سماجی معاہدہ معاشرے کی اصل ہے اور بنیادی طور پر افراد پر حکومت کی حاکمیت کو لاگو کرنے کا جواز ہے،یہ تصور روزمرہ کی زندگی میں سماجی رابطے کی منطق ہے اور سیاسی، سماجی نیز ثقافتی اعمال کا جواز پیش کرتا ہے۔
سیاسی ادب میں سماجی معاہدہ معاشرے کی اصل ہے اور بنیادی طور پر افراد پر حکومت کی حاکمیت کو لاگو کرنے کا جواز ہے،یہ تصور روزمرہ کی زندگی میں سماجی رابطے کی منطق ہے اور سیاسی، سماجی نیز ثقافتی اعمال کا جواز پیش کرتا ہے، ایک لحاظ سے سماجی معاہدے معاشرے کے میکانزم اور گیئرز کا نام ہے، یہودی خیالی وطن کے قیام کے آغاز سے ہی بہت سے اختلاف رائے نے صیہونی حکومت کی تشکیل کے لیے کسی ایک آپشن تک پہنچنا مشکل بنا دیا،اس نقطہ نظر سے اور آبادی کے بحران نیز زیادہ سے زیادہ تارکین وطن کو راغب کرنے کی ضرورت جس کا اس وقت صیہونی حکومت کے حکام کو سامنا تھا، کو دیکھتے ہوئے اسرائیلی حکومت کی بنیاد ایک قسم کے سماجی معاہدے پر رکھی گئی، صیہونی حکومت میں یہ سماجی معاہدے، اسرائیل میں موجودہ سماجی و سیاسی رجحانات کے بنیادی آلات اور ڈرائیونگ انجن کے طور پر، صیہونیت کی بنیادی ضرورت کی وجہ سے تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو راغب کرنے اور تمام گروہوں کو مراعات فراہم کرنے(یہاں تک کہ جو اقلیت میں ہیں) پر مبنی تھے، اس معاملے کا ایک اور فلسفہ بھی ہے اس طرح سے کہ عصر حاضر کے یہودی اور صیہونی مفکرین نے ہولوکاسٹ کے جھوٹ کا سہارہ لے کر "خصوصیت” سے پرہیز اور "گروہوں کے درمیان فرق خواہ وہ اقلیتیں ہی کیوں نہ ہوں” کو ختم کرنے کا فلسفہ پیش کیا۔ ان اعلانیہ پالیسیوں کا صیہونی حکومت پر اس طرح اثر ہوا کہ اس وقت صیہونی حکومت کے عہدیداروں نے کوشش کی کہ کم از کم مختلف اشکنازی (مغربی) یہودی گروہوں کے درمیان تفریق نہ کی جائے اور ان تمام گروہوں (نظریاتی اور مذہبی اختلافات سے قطع نظر) کو حکومت میں حصہ ملنا چاہیے، [یقیناً، صیہونیت کے رہنماؤں کا شروع سے ہی جنوب مغربی ایشیا (مشرق وسطی) کے سیاہ فاموں اور یہودیوں کے لیے نسل پرستانہ رویہ تھا لہذا، سیاست اور حکومت کے انتھولوجی کے لحاظ سے، صیہونی حکومت بڑی حد تک اجتماعیت پسند حکومتوں کے زمرے میں شامل ہے-
اس قسم کی حکومتیں جو اکثریتی یا اقلیتی حمایت کے نظریے پر مبنی ہوتی ہیں وہ اقلیت کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں یعنی وہ مطلق اکثریت کے خیال کو قبول نہیں کرتیں، اس لیے صیہونیوں نے تمام یہودی گروہوں کو حکومت کی تشکیل میں شامل کیا البتہ صرف یہودیوں (بنیادی طور پر مغربی) کو، دیگر سماجی گروہوں کو شامل نہیں کیا گیا اس لیے اس کے بعد صیہونی عربوں (بنیادی طور پر مسلمانوں) کو ختم کرنے کے لیے منظم کارروائی کرنے لگے اور اگلے مرحلے میں انہوں نے یہودیوں کی صفوں میں بیگانگی پھیلانا شروع کردی، صہیونی معاشرے کے اہم مسائل، جو لوگوں کے روزمرہ کے مکالمے اور فلسفے کی تشکیل کرتے ہیں، کی جڑیں اجتماعیت کے سماجی معاہدوں میں گہرے ہیں، معاشرے کی تشکیل اور حکومت کو قانونی حیثیت دینے کی بنیاد ان سماجی معاہدوں کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے، خاص طور پر انہیں 2018-2022 کے وسط میں عرب-یہودی اور مذہبی-یہودی-سیکولر تقسیم میں قسم کی انتہائی انتہائی صورتحال کا سامنا رہا ہے، یہ سماجی معاہدات جن کی 2021-2022 میں شدید خلاف ورزی کی گئی ہے اور صیہونی حکومت کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی رجحانات کو چیلنج کیا گیا ہے، درج ذیل ہیں:
موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنے کا معاہدہ: یہ سماجی معاہدہ صیہونی حکومت کے قیام کے بالکل شروع میں ہیپول حمزراخی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ربی زیرک ورہفتگ [1] کی پہل پر پیش کیا گیا تھا، جو یہودیوں میں مذہب اور ریاست کے درمیان تعلقات کو منظم کرنے کے لیے یشو کے نام سے مشہور بستیاں بنانے پر مبنی تھا، یہ معاہدہ شادی اور طلاق، مذہبی تعلیم کے نظام کی خود مختاری، اور کسروت (حلال شریعت) اور سبت کے دن کی پابندی سے متعلق قوانین وغیرہ جیسے صہیونی معاشرے کے بنیادی مسائل کی وضاحت کرتا ہے لہٰذا صیہونی حکومت کے موجودہ آبادیاتی، سماجی، ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی چہرے والے معاشرے کے تمام آلات اسی سماجی معاہدے پر مبنی ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ تمام انسانی پہلوؤں میں صیہونی حکومت میں زیست کا نقطہ آغاز یہی معاہدہ ہے، یہ معاہدہ شروع سے ہی صیہونی حکومت کے تمام تعاون، پالیسیوں اور اتحاد کی بنیاد رہا ہے، لیکن نیتن یاہو کی 2022 کی حکومت میں اس معاہدے کو انتہا پسند اتحادیوں کے حق میں تباہ کر دیا گیا ہے؛ مثال کے طور پر ان کی کابینہ میں وزیر تعلیم حییم بیتون جیسے لوگ، داخلی مشن کے وزیر اوریت استروک ، وزیر یہودی شناخت)، عمیخای الیاهو، وزیراعظم کے آفس وزیر آوی ماعوز اور وزیر مذہبی خدمات میخائیل ملکای اس توازن کو بری طرح تباہ کر رہے ہیں، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ اسرائیل کی تشکیل کا سنگ بنیاد، بہت سے دوسرے ممالک کے برعکس، اقلیت پرستی تھی، اس وقت تک توازن کی تباہی کی اتنی ہی مقدار اور نیتن یاہو کی کابینہ کے منصوبے کا وسیع حجم، خود اس کی تصدیق کرتا ہے کہ موجودہ صورتحال کو کو برقرار رکھنے کا سماجی معاہدہ جس پر صہیونی سماجی بقائے باہمی کا پہلا اور سب سے اہم مرکز ہے،کس قدر تباہ کیا جا رہا ہے۔
ملٹری سروس : یہ معاہدہ یشیواس (مذہبی اسکولوں) میں ہریدی طلباء کو فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے، فوجی خدمات کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی فہرست میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ہیں، جو اس کالم کے دائرہ کار سے باہر ہے لیکن کسی بھی صورت میں 1948 کی جنگ اور اسرائیلی فوج کے باضابطہ قیام کے بعد فوج کی تشکیل کا خیال قوم کی تعمیر اور وطن کے دفاع پر مبنی تعاون کے لیے ایک ادارہ” بنانا تھا جو سیاسی-سماجی-مذہبی صف بندی سے اوپر تھا لہذا فوج کو ایک ایسی پوزیشن ملی جہاں شہریت اور سماجی اہرم میں ترقی کا انحصار فوجی خدمات پر تھا، یہ مسئلہ کچھ حریدی نوجوانوں کی مذکورہ معاہدے کو نظر انداز کرنے کی خواہش اور نتسخ یہودابٹالین اور برادرز ملٹری پیٹرول بٹالین میں حریدیوں کی موجودگی کا سبب بنا ہے، اس رجحان ن، حریدی کو مستثنیٰ قرار دینے کے لیے سیکولرز کی شدید تنقید کی وجہ سے مندرجہ بالا سماجی معاہدے کو ایک سنگین چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہاں تک کہ ہریدیوں کے خلاف سخت ترین اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں جیسے کہ 2021 میں روسی نژاد کے اس وقت کے وزیر اقتصادیات ایویگڈور لائبرمین کی جانب سے فوجی خدمات کی معافی اور سبسڈی کی ادائیگی پر کیے جانے والے اعتراضات لہذا 2021 اور 2022 میں، ہریدیوں اور سیکولرز کے درمیان سب سے زیادہ بنیاد پرست تصادم دیکھا جا سکتا ہے، تاہم نیتن یاہو کی 2022 کی کابینہ میں Itamar Benguir کو وزیر داخلہ اور Betsalel Smotrich کو وزارت دفاع کے سول سیکٹر کے وزیر کے طور پر تعینات کرنے کی وجہ سے فوج کے قوم پرست جذبے اور اس ادارے کے رویے سے گریز کرنے کے لیے زینو فوبک کے اثر و رسوخ کو قبول کرنے سے ذیلی شناخت ایک بحران کا سامنا کر رہی ہے، اسی طرح کہ الخلیل میں ایک ریٹائرڈ اور بائیں بازو کے یہودی فوجی کی بن گوئر کی حمایت کرنے والے جیواتی بریگیڈ کے ایک سخت گیر افسر کے ہاتھوں مار پیٹ کے بعد صیہونی یہودی برادری کی رائے عامہ دو حصوں میں بٹ گئی، ، جس نے اسرائیلی فوج کو بطور قومی فوج سمجھنے والی صیہونی برادری اس عقیدے کو کھو بیٹھی اور اس طرح صیہونی معاشرہ 47% مخالف اور 47% حق میں تقسیم ہو گیا، درحقیقت، کمانڈ پوسٹوں پر بن گوئر اور سموٹریچ انتہا پسند یہودیوں کی آمد کے بعداسرائیلی مسلح افواج پر حکمرانی کرنے والی اقدار کا نظام اس حد تک زیادہ شدید اور ظالمانہ ہو گیا ہے کہ اسرائیل کی مسلح افواج کے موجودہ کمانڈر ایویو کوخاوی کو بھی اشتعال دلایا ہے، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ 2019 میں اسرائیل کے انٹرنل سکیورٹی اسٹڈیز سنٹر کی جانب سے کیے گئے کے سروے کے مطابق، 70% صیہونی معاشرے کا ماننا تھا کہ فوج کی کمان پر حکمرانی کرنے والی اقدار کا نظام اکثریت کے قدری نظام کے قریب ہے،اس وقت جبکہ فوج کی کمان نہیں بدلی لیکن معاشرے کی اکثریت کے منتخب سیاست دان بدل گئے ہیں، لہٰذا اسرائیل جس نے اپنے قیام کے آغاز سے ہی اکثریت پرستی کی پیروی کرنے اور اقلیت کو ختم کرنے سے گریز کیا تھا، اب اس نے اپنے بائیں بازو اور اعتدال پسند معاشرے کو ختم کر دیا ہے نیز تیزی سے نفرت پھیلانےمیں مصروف ہے اور زینوفوبیا کی کھائی میں گر رہا ہے،یہ رجحان 2021-2022 کے وسط میں تیز ہوا ہے، ایسا لگتا ہے کہ صہیونی عوام کو جس کا ڈر تھا وہی ہوا اور قومی فوج کی شکل میں مادر وطن کے دفاع کے لیے تمام صہیونی شہریوں کی فوجی خدمات پر مبنی سماجی معاہدے کو بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس طرح 60% صہیونی برادری فوج کی کارکردگی پر نظریاتی اختلافات کے تباہ کن کردار سے پریشان تھی، اسی طرح صیہونی حکومت میں ان اختلافات اور غیروں سے فوبیا نے فوج کو تباہ کر دیا ہے جسے قوم سازی کے عمل کے بنیادی ادارے کے طور پر جانا جاتا ہے، یہ اہمیت فوجی خدمات کی دہلیز پر نوجوانوں کی خواہش میں ظاہر ہوئی ہے، جب کہ عسکری شناخت مثالی صہیونی کردار کی تشکیل کا ایک لازمی حصہ تھی ،اب 2020 میں اس ادراے میں خدمت کے اہل افراد میں سے نہ صرف 46% نے فوجی خدمات سے انکار کیا ہے بلکہ یہ شرح 2050 میں بڑھ کر 52% ہو جائے گی جس نے فوج کے قومی ہونے اور صہیونی سماجی نظام کے دفاع کے فرض کی عمومیت کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے لہذا ذہنی بیان اور خود کی مدد اور اپنے دفاع کی ضرورت کی بنیادی قدر کو ایک عملی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ سکیورٹی پولز کے مطابق”ہم صرف اپنے آپ پر بھروسہ کر سکتے ہیں” اور 80% ہمیں ہمیشہ اپنی تلواروں سے رہنا چاہیے اور 64% اتفاق رائے دیکھنے کو ملا ہے لیکن اس کا عملی طریقہ زوال اور تشویش کی طرف گامزن ہے۔
اکثریت پسندی سے بچنا: جن وجوہات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، صیہونی حکومت کی بنیاد شروع سے ہی اقلیت پرستی پر رکھی گئی ہے جیسا کہ 1963-1948 کے وسط میں، جب موجودہ صورتحال کے بالکل برعکس ماپائی جیسی بائیں بازو کی جماعتوں کا ایک غیر متنازعہ راج تھا اور مذہبی جماعتیں اکثریت حاصل کرنے سے کوسوں دور تھیں ، ایسا نہیں تھا کہ اکثریتی جماعت کے پیش نظرقوانین اور طریقہ کار پر غور کیا جائے بلکہ کسی حد تک بات چیت کی فضا قائم تھی ، تاہم صیہونی حکومت کی سیاست اور معاشرے کے افق کو 2018 کے بعد سے نتن یاہو اور چند محدود شخصیات کی سربراہی میں بڑی تیزی کے ساتھ اکثریت پسندی کی شکل میں نئے سرے سے ڈیزائن کیا گیا ، نیتن یاہو کی 2022 کی کابینہ میں حزب اختلاف کا خاتمہ اس وقت عروج پر پہنچا جب صیہونی سیاسیات کے اشرافیہ ڈاکٹر اساف شاپیرا اور اسرائیل ڈیموکریسی تھنک ٹینک جیسے افراد صیہونی حکومت اور اس کی پارلیمنٹ کے حکمرانی کے عمل کی بیماری پر تنقید کرتے نظر آئے، یہ لوگ اسرائیل کی سیاست اور قانون سازی کو کئی شخصیات کے مفادات کا میدان سمجھتے ہیں جنہوں نے خاص طور پر 2018 کے بعد کافی زور پکڑا ہے۔
ہفتہ کے دن کی صورت حال: ہفتہ کے دن چھٹی اور معمولات زندگی میں خلل ڈالنے کی پیچیدہ صورت حال ایک مسئلہ ہے جو فلسطین پر برطانوی سرپرستی کے زمانے سے موجود ہے،بدنام زمانہ صہیونی حکومت کے قیام کے بعد اگرچہ اس حوالے سے باضابطہ قانون سازی اور مراکز کھولنے یا بند کرنے کا فیصلہ مقامی کونسلوں کے سپرد کر دیا گیا ہے لیکن عملی اکثریت پسندی کی وجہ سے کئی شہروں میں ہفتہ کو کی چھٹی ہے اور کاروبار کی روک تھام کا مطلب ہے کہ غیر ہریدی گروپوں کو خارج کرنا تھا، تاہم، اس پر عمل درآمد ہوتا ہے یہاں تکہ کہ بریلان اور صہیونی بستیوں میں سنیچر کی چھٹی کی خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ خونریز جھڑپوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہفتہ کی چھٹی کی وجہ سے صیہونی حکومت نے ہفتے کے تین دن (جمعہ، ہفتہ اور اتوار) کو تقریبا آدھا دن چھٹی رکھی ہے،یہ اقدام خود سیکولر گروہوں کے مفادات کی خلاف ورزی اور ان کا خاتمہ ہےجو صیہونی حکومت کے بنیادی سماجی معاہدے کی سرخ لکیر تھی، جب تک زیادہ تر ممالک اکثریتی ہیں، اسرائیل تمام یہودی تارکین وطن کو رکھنے کی ضرورت کی وجہ سے، رعایتیں دے کر کشش پیدا کرنے کو نظر انداز نہیں کر سکتا،اس لیے تمام گروہوں کے مفادات کا ادراک کرنے کی کوشش میں یہ مفادات کے ٹکراؤ کا شکار ہے۔ سنیچر کی چھٹی بھی ان صورتوں میں سے ایک تھی جو صیہونی حکومت کی سیکولر اکثریت کے مفادات کو تباہ کرتے ہوئے حریدی مذہبی اقلیت (1950 کی دہائی میں صہیونی برادری کے 10 فیصد سے بھی کم) کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں اس کی اجازت دی جانی چاہیے تھی، یہ خلل2021 میں سیکولر وزیر اقتصادیات ایویگڈور لائبرمن کی وزارت کے بعد ان کے اور ہریدی مذہبی جماعت کے درمیان نفرت انگیز تنازعہ کا باعث بنا،نیتن یاہو کی 2022 کی کابینہ اس حکومت کی سیکولر اکثریت سے بدلہ لینے کا وقت تھا، جیسا کہ نیتن یاہو کی حلیف کے طور پر حریدی تورہ یہودی پارٹی نے کابینہ میں ان کے داخلے کے لیے شرائط رکھی تھیں جیسے کہ ہفتے کے روز پاور پلانٹس کو بند کرنا جو اسرائیل کو تاریکی میں ڈبو دے گا۔
حقیقی یہودی کون ہے؟؛ اس سوال کی جڑیں یہودیوں کے مختلف طریقوں کے اختلافات کے ساتھ ساتھ پوری تاریخ میں یہودیوں کی نقل مکانی اور ڈائاسپورا یہودیوں (یا وطن سے دور یہودیوں (صیہونی اصطلاح میں) کے رجحان کی تخلیق میں ہے۔ )۔ اگرچہ Agreement to Maintain the Status Quo کے مطابق مذہب تبدیل کرنے اور یہودیت اختیار کرنے کی اجازت ربینک اداروں کی اجارہ داری رہی ہے لیکن یہ اجارہ داری 1950 کی دہائی کے بعد قانون واپسی کی منظوری کے بعد محدود ہو گئی، اگرچہ اصل قانون جس میں کہا گیا ہے کہ یہودی ماں سے پیدا ہونے والا بچہ ہی یہودی ہے لیکن اس میں ترمیم کر دی گئی اور صہیونی شہریت اور پاسپورٹ کے اہل یہودی بھی اس میں شامل ہو گئے لیکن یہ سوال لا جواب رہا کہ یہودی کون ہے؟۔ اس سوال کا جواب دینے میں ناکامی کہ واقعی یہودی کون ہے؟ مذہبی اور سیکولر یہودی گروہوں کے درمیان ناقابل مصالحت اختلافات کی وجہ سے ہے، یہ فرق نہ صرف 90 کی دہائی میں سابق سوویت یونین سے بے شمار اور سیکولر تارکین وطن کی آمد سے کم نہیں ہوا بلکہ 2021 اور یوکرین میں جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اسے ایک نئی زندگی ملی، یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد جب کہ سیکولر اسرائیلی حکام نے یوکرین کے پناہ گزینوں یا کم از کم یوکرین کے یہودیوں کو قبول کرنے کی صورت میں اس حکومت کی حمایت کا پرجوش انداز میں دفاع کیا جبکہ یہی مذہبی لوگ روسی بولنے والے تارکین وطن کے ساتھ مسلسل تنازعات کا شکار ہیں، انہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اس مسئلے کا سختی سے مقابلہ کیا جبکہ 2021 اور 2022 میں مذہبی سیکولر تقسیم اور بھی گہری ہو گئی،اس صورت حال میں، اگر ہم بینیٹ کے وزیر اعظم کے طور پر اپنی مدت ختم ہونے کے بعد صیہونیوں کے نام کھلے خط کو مایوسی کے ساتھ ایک قسم کا پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں اور اگر ہم ان کے انتباہات پر غور کریں کہ اسرائیل حکومت کی آٹھویں دہائی تک نہیں پہنچ سکے گا ،فضولیات قرار دیں تب بھی ہم یوول ڈسکن سیاست دان کے بلند و بالا انتباہ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
یوول ڈسکن جو صیہونی انٹیلی جنس کمیونٹی کے اسٹریٹجسٹ اور سب سے بڑے نظریہ دان کے طور پر جانے جاتے ہیں، صیہونی حکومت کے سماجی و سیاسی رجحانات کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے ہیں، شباک کے یہ سابق سربراہ وہی ہیں جنہوں نے میر ڈگن (موساد کے سب سے مشہور حالیہ سربراہ) کے انٹیلی جنس طریقہ کار کے مشیر کے طور پر موساد میں انٹیلی جنس طریقہ کار کی بنیاد رکھی، ممتاز میگزین فارن پالیسی نے انہیں دنیا کے 100 عظیم مفکرین میں سے ایک شمار کیا ہے، یہ وہ پہلا شخص ہے جس نے 90 کی دہائی کے اواخر سے انٹیلی جنس اداروں کو انٹیلی جنس مقاصد کے لیے پیچیدہ ڈیٹا پراسیسنگ کے طریقے متعارف کروائے ،یہ وہ وہ شخص ہے جس نے صیہونی حکومت کے بہت سے سکیورٹی بحرانوں کی پیشین گوئی کی تھی۔ اس طریقہ کار کی بنیاد پر، وہ صہیونی انٹیلی جنس کمیونٹی کے بہت سے طریقہ کار اور آپریشنل رجحانات کا معمار سمجھا جاتا ہے، یہ وہ واحد شخص ہے جس نے شباک کی صدارت کے دوران غزہ میں حماس کی حکمرانی کی پیش گوئی کی تھی جبکہ اس وقت اسرائیل کے فوجی سکورٹی اداروں کے پاس ایسی کوئی پیش گوئی نہیں تھی ، یہ شخص اپنی سائنسی انٹیلی جنس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے صیہونی حکومت ، فلسطینی اتھارٹی اور مصر کے انٹیلی جنس آلات کے ساتھ انٹیلی جنس تعاون کا معمار ہے، اسرائیل کی انٹیلی جنس کمیونٹیز کے لیے اس کی میراث ناقابل تردید ہے۔
اس شخص نے ایک طویل خط میں لکھا ہے کہ موجودہ صیہونی حکومت تین اہم خطرات میں ملوث ہے؛پہلا؛ 1948 کی جنگ اور بدنام زمانہ حکومت کا قیام؛ دوم 1973 میں یوم کیپور جنگ، اور تیسرا؛ 2022 کے اسرائیلی انتخابات کے بعد کے نازک حالات، انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت نے پچھلے دو تاریخی موڑ کامیابی سے گزارے ہیں لیکن یہ بحران ایک خاص صورتحال ہے کیونکہ یہ صیہونی حکومت کے اندر سے شروع ہوا ہے اور شدید سماجی و سیاسی تقسیم نیز قدروں کے نظام کے گہرے ہونے کی وجہ سے ہے، قدر کے نظام کی تباہی اور خلیجوں کے مزید گہرے ہونے کا ذکر اس خط میں سماجی معاہدوں کی تباہی کی صورت میں کیا گیا ہے جو حکومت کے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی رجحانات کا محرک ہے،آخر میں، یوول ڈسکن نے ووٹنگ شروع ہونے سے پہلے اپنے ایک کام میں خبردار کیا ہے کہ اگر Itamar Benguir اور Betsal El Smotrich ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اور اسرائیلی کابینہ میں شامل ہوجاتے ہیں نیز اگر کابینہ حریدی یا کاہانسٹ مذہبی یا عرب بنیاد پرست جماعتوں پر مشتمل ہوتی ہے تو صیہونی حکومت کے حالات اس طرح آگے بڑھیں گے کہ اس تاریخی موڑ کو بحفاظت گزرنا ممکن نہیں رہے گا،اس بااثر حکمت عملی اور اسرائیل کی داخلی سلامتی کی تنظیم شاباک کے کمانڈر کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں صیہونی حکومت خانہ جنگی کے علاوہ کسی اور نتیجے کی توقع نہیں کر سکتی، اسی لیے انہوں نے اپنے کالم کا عنوان "خانہ جنگی کے خاتمے پر” رکھا ہےاور جنگ کا انتخاب کیا ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ صیہونی عہدہ دار کے تمام انتباہات سچ ثابت ہوئے،یہ رجحانات وہ مسائل ہیں جو2020-2022 میں بڑے پیمانے پر عام ہوئے جبکہ ایرانی سپریم لیڈر نے 33 روزہ جنگ میں فتح کے بعد حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سے صیہونی حکومت کے جلد خاتمے کے حوالے سے جو کچھ کہا، وہ اس بات کی پیشین گوئی ہے کہ آج اسرائیل کے اعلیٰ انٹیلی جنس کمانڈر (یوول ڈسکن) کے ساتھ کئی فوجی کمانڈر بھی اسے تسلیم کرتے ہیں ، یقیناً یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے لیے آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ عالم اسلام اور تمام آزاد لوگوں کی کوششوں، ارتکاز اور تعاون کی ضرورت ہے ، کیا واقعی صبح نہیں ہونے والی؟