سچ خبریںان دنوں صیہونی حکومت اس قدر نازک حالات سے گزر رہی ہے کہ اس حکومت کے حکام بھی آنے والے خطرات اور مسائل کو تسلیم کر رہے ہیں اور مزاحمتی گروہوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اندرونی تنازعات مقبوضہ علاقوں میں ایک ناقابل حل مسئلہ بن چکے ہیں نیز مستقبل قریب میں اس حکومت کے زوال کے بارے میں مختلف تجزیے ہو رہے ہیں۔
بنیامین نیتن یاہو کی متزلزل کابینہ کے گزشتہ دو مہینوں میں اقتدار سنبھالنے کے بعد، صہیونی گروہوں اور تنظیموں کے درمیان اندرونی تنازعات کے پھیلنے کے بارے میں بہت سی پیشین گوئیاں کی گئی تھیں اور یہ مسئلہ بی بی کے "عدالتی نظام کے اصلاحات” کے منصوبے سے متعلق ہے جس کے لیے صیہونی حکومت کی ابتدائی منظوری عملاً دھماکے کے مرحلے تک پہنچ چکی ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں اس وقت صہیونیوں کو جن مسائل سے دوچار کیا جا رہا ہے ان میں سے ایک صیہونی حکومت کا "عدالتی نظام میں اصلاحات” کا منصوبہ ہے، جسے نیتن یاہو کی کابینہ نے Knesset کے سامنے پیش کیا جہاں اس کے پہلے مرحلے کی منظوری دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو، جو برسوں سے بدعنوانی، رشوت خوری اور امانت میں خیانت جیسے الزامات کے تحت عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں اس منصوبے کی آڑ میں اپنے آپ کو بچانا چاہتے ہیں جبکہ ان کے متعدد مخالفین اس منصوبے کی سخت مخالفت کرتے ہیں، یاد رہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ جس منصوبے پر عمل درآمد کرنا چاہتی ہے، اس میں عدالتی نظام کے اختیارات کو کم کیا جائے گا اور صیہونی کابینہ کے عدالتی مشیر سمیت دیگر وزارتوں کے عدالتی مشیروں کے اختیارات چھین لیے جائیں گے اور وزیر کو انہیں ہٹانے یا تعینات کرنے کا امکان ہوگا جبکہ صیہونی ایگزیکٹو اور قانون ساز شاخوں کی طاقت اور پوزیشن کو مضبوط کیا جائے گا، یاد رہے کہ کنیسٹ کے حالیہ اجلاس میں، اس منصوبے کو ابتدائی مرحلے کو اس کے حق میں 63 ووٹوں اور 47 مخالف میں ووٹوں کے ساتھ منظور کر لیا گیا، تاہم Knesset کے اجلاس میں اس کے دوسرے اور تیسرے مرحلے پر ابھی ووٹنگ ہونا باقی ہے تاکہ یہ قانون بن سکے ۔
یاد رہے کہ کنیسٹ ووٹنگ کے دن اور نیتن یاہو کے منصوبے کی ابتدائی منظوری کی خبر کے فوراً بعد صیہونی حکومت کی کرنسی شیکل کی قدر گر گئی جو صیہونی حکومت پر اس منصوبے کا پہلا اثر تھا، مقبوضہ علاقوں کے بہت سے ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ یہ اصلاحات سے بہت سارے سرمایہ کاروں کے اسرائیل سے فرار ہونے کا سبب بن سکتی ہیں، یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں لاکھوں لوگ روزانہ مقبوضہ علاقوں کے شہروں کی سڑکوں پر آ کر نیتن یاہو حکومت کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس کی منظوری پر اپنے عدم اطمینان اور غصے کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ کچھ جگہوں پر اس منصوبے کے خلاف احتجاج تشدد میں بھی بدل گیا ہے۔
صیہونی حکومت کے خاتمے کے بارے میں انتباہ
حالیہ دنوں میں صیہونی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے علاقائی مسائل کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کی پیشین گوئیوں کے علاوہ اس حکومت کے سیاسی اور سکیورٹی حکام کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس مسئلے کے بارے میں خبردار کیا ہے جن میں سب سے پہلے صیہونی حکومت کے سربراہ اسحاق ہرزوگ ہیں،جنہوں نے اس حکومت کے خاتمے کے بارے میں متعدد بار اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ (مقبوضہ علاقوں میں) اندرونی اختلافات مزید گہرے اور تکلیف دہ ہو گئے ہیں جنہیں موجودہ بحران مزید بڑھا رہے ہیں، انہوں نے اسرائیل کو ایک ہولناک امتحان میں ڈال دیا ہے،ادھر حزب اختلاف کے دھڑے کے سربراہ اور صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم یائر لاپڈ نے بھی اعلان کیا ہے کہ چھ ماہ میں اسرائیل اندر سے ٹوٹ جائے گا جس کے بعد اسرائیلی ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں گے،صیہونی حکومت کی قومی سکیورٹ ورٹی سروس (شاباک) کے سربراہ رونن بار نے بھی صورتحال کی سنگینی کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حالات دھماکے کے مقام پر پہنچ چکے ہیں، شباک انٹیلی جنس سروس کے سابق سربراہ دیویر کریو نے تل ابیب کی موجودہ صورتحال کو زلزلے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ زلزلہ سونامی میں بدل گیا تو یہ ہم سب کو لے ڈوبے گا۔
صیہونی حکومت کے سابق سکیورٹی وزیر Avigdor Kehlani” نے بھی کہا ہے کہ اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر ہے جبکہ نیتن یاہو کی کابینہ کا نقطہ نظر تنازعات میں اضافہ کرے گا، دریں اثناء شباک کے 460 ارکان کا کھلا خط بھی بہت دلچسپ ہے،یہ لوگ جو صہیونی انٹیلی جنس اینڈ انٹرنل سکیورٹی آرگنائزیشن (شاباک) کے تمام پرانے افسران اور ملازمین ہیں، نے اس تنظیم کے سابق سربراہ اور موجودہ کابینہ کے وزیر کو لکھے گئے خط میں عدالتی تبدیلیوں کی مخالفت کا مطالبہ کرتے ہوئے ان اصلاحات کو نیتن یاہو ایجاد اورعدالت سے بغاوت قرار دیا ہے، صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایہود بارک نے بھی ایک بے مثال اقدام اور انتہا پسند بی بی کابینہ کی عدالتی اصلاحات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے صیہونی فوجیوں سے کہا کہ وہ اپنے کمانڈروں اور اعلیٰ افسران کے احکامات پر عمل نہ کریں، ادھر صیہونی حکومت کے سابق وزیر خزانہ Avigdor Lieberman جو کئی سالوں سے "Bibi” کے اتحادی تھے اور اب ان کے مخالفین میں سے ایک ہیں، نے نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "اس نے اسرائیل کو مکمل افراتفری میں ڈال دیا ہے نیز اس کی موجودہ انتہائی دائیں بازو کی کابینہ اسرائیل کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی اس نے اسرائیلیوں کے دلوں میں خوف پیدا کر دیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں ان دنوں جو انتہائی خطرناک حالات اور تنازعات پائے جاتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ فلسطین کے سلسلہ میں اللہ کا وعدہ پورا ہو رہا ہے اور غاصب صیہونی حکومت کے خاتمے کے لیے فلسطین اور علاقے کے عوام کی امیدیں وہ پوری ہو رہی ہیں، اب وہ وقت دور نہیں دیر نہیں جب صیہونی ایک دوسرے کو اپنے ہاتھوں سے دفن کریں گے اور فلسطین کی سرزمین آزاد ہو کر فلسطینیوں کے قبضے میں جائے گی نیز خطہ سے یہ کینسر ختم ہوئے گا ، خطہ 75 سال بعد ایک بہتر رخ دیکھے گا،لہذا اس کے ساتھ ساتھ بعض عرب رہنما وابستگان جن کے تل ابیب حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، کو بھی اپنے حالات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔