صیہونی حکومت 80 سال کا ڈراؤنا خواب کیوں دیکھ رہی ہے؟

صیہونی

🗓️

سچ خبریں:صیہونی ریاست کے اندرونی اختلافات، بنیاد پرست صیہونیوں اور سیکولرز کی دو قطبی تقسیم، معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ گزشتہ 2 سالوں میں مزاحمتی تحریکوں کی توسیع اور ان کی مرحلہ وار حکمت عملی تل ابیب کے لیے ایک ڈراونا خواب بن چکی ہیں۔

ایران کے روحانی پیشوا اور اسلامی انقلاب کے رہبر آیت اللہ خامنہ ای نے 13 رمضان المبارک کو حکام کے ساتھ ایک اہم اور مفصل ملاقات میں صیہونی حکومت کی کمزوری اور اس کے لیڈروں کے تباہی کے احساس کی طرف اشارہ کیا،انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ دوسرے نمبر کی ہماری دشمن صیہونی حکومت اپنی 75 سالہ زندگی میں اس قدر خوفناک مسائل سے دوچار نہیں ہوئی جس طرح آج ہے،سب سے پہلے سیاسی عدم استحکام ؛چار سالوں میں چار وزرائے اعظم بدلے پارٹی اتحاد جو ابھی تک صحیح طریقے سے بن نہیں سکے ٹوٹ گئے،۔ وہ اتحاد بناتے ہیں جو تھوڑی دیر بعد اتحاد ٹوٹ جاتا ہے، وہ جماعتیں جو پہلے بن چکی ہیں یا بن رہی ہیں، آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہی ہیں یعنی، وہ اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ تباہی کی دہانے پر پہنچ چکے ہیں، ان کے سابق وزیر اعظم، قومی سکیورٹی کے سربراہ ، وزیر دفاع سب کہتے ہیں کہ ہمارا زوال قریب ہے،ہم اسّی سال کی عمر کو نہیں پہنچ سکیں گے، ہم نے کہا تھا کہ آپ مزید پچیس سال نہیں دیکھیں گے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس سے بھی جلدی منظر سے غائب ہونا چاہتے ہیں،اس تجزیے میں ہم اسی کی دہائی کے ڈراؤنے خواب کے حوالے سے صہیونی رہنماؤں کے کچھ بیانات اور خدشات کا جائزہ لیں گے:

نیتن یاہو نے 80 سال کا خوف شروع کیا۔
اس ممکنہ تصور کے برعکس کہ صیہونی حکومت کی اپنی زندگی کے اسی سال پورے نہیں کر سکے گی، یہ فکر حالیہ برسوں میں اور نفتالی بنت اور لاپڈ جیسی شخصیات کی طرف سے شروع نہیں بلکہ نیتن یاہو نے 2017 میں ایک گفتگو میں کہا تھا کہ میں اسرائیل کی 100 ویں سالگرہ کے لیے کام کر رہا ہوں کیونکہ اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہے اس لیے کہ کوئی بھی یہودی حکومت 80 سال سے زیادہ باقی نہیں رہی!

نفتالی بنت کا خط:اسرائیل یقینی طور پر 80 سال نہیں دیکھے گا۔

80 سال کی عمر میں اسرائیل کے ٹوٹنے کے امکان کے بارے میں سب سے مشہور تبصرہ سابق وزیر اعظم نفتالی بنت کا ہے،صیہونی حکومت کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر "وزیراعظم بنت کا خاموش صہیونی اکثریت کے نام خط” کے عنوان سے ایک کھلے اور تفصیلی خط میں بنت نے تفصیل سے لکھا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کے 80 کی دہائی سے کیوں خوفزدہ ہیں،اس خط کا ایک حصہ میں لکھا ہے کہ پوری تاریخ میں اس سرزمین میں یہودی دو بار ایک آزاد اور متحد ملک کے مالک تھے؛پہلی بار 80 سال تک یہودی ریاست رہی اور پھر اندرونی کشمکش کی وجہ سے ٹوٹ گئی اور دوسری بار یہودیوں کی حکومت تقریباً 77 سال تک قائم رہی اور پھر خانہ جنگی کی وجہ سے رومیوں کے ہاتھوں اس کی حکمرانی ختم ہو گئی، اب اسرائیل یہودیوں کی حکومت کا تیسرا دور ہے جو اس وقت 75 ویں سال میں ہے،ہم سب اس امتحان کا سامنا کر رہے ہیں کہ کیا ہم 1980 کی دہائی تک ایک آزاد اور متحد ملک کے طور پر باقی رہ سکیں گے یا پھر اندرونی تنازعات کی وجہ سے تباہ ہو جائیں گے؟ اس کے بعد نفتالی بنت کئی بار اسّی سال کے خطرے سے خبردار کر چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں قیمتیں دنیا میں سب سے زیادہ ہیں،15 سال سے اجارہ داروں اور کارٹلز کی جبیں بھر رہی ہیں لیکن اب ہم اسے سنبھال رہے ہیں،اسرائیل میں بیوروکریسی اب بھی بہت زیادہ ہے،مکانات کی قیمتیں ناقابل برداشت ہیں،پچھلی دہائی میں وہ فلکیاتی سطح تک بڑھ چکی ہیں، انتخابی تعطل کے دو سالوں میں، مارکیٹنگ کی ملازمتوں اور تعمیراتی کاموں کی تعداد میں کمی آئی ہے،کیا آپ نے دیکھا ہے کہ پچھلے سال یہاں کیا ہوا تھا؟ ہم آپ شہریوں کے لیے دوبارہ کام کر رہے ہیں۔ کابینہ کے وزراء اپنے لیے کچھ نہیں کرتے۔

ایہود باراک: 80 سال کا نحس ہونا
اسرائیل کے ایک اورسابق وزیر اعظم ایہود براک کا بھی خیال ہے کہ 1980 کی دہائی نحس ہے، حال ہی میں 1999 سے 2001 تک وزارت جنگ کے دوران ساڑھے تین منٹ میں 300 سے زائد فلسطینیوں کو قتل اور اپنے دیگر اقدامات نیز جرائم کا بڑے فخر سے اعتراف کرنے والے ایہود باراک صیہونی یدیوت احرونوت میں شائع ہونے والے اپنے ایک کالم میں،80 کی گنتی کے نحس ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہود کی پوری تاریخ میں، یہودیوں نے اسّی سال سے زیادہ حکومت نہیں کی، داؤد کے دو ادوار اور حسمونی دور میںان کے خاتمے کا آغاز اسی کی دہائی میں ہوا، انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ اسرائیلی کابینہ کا تجربہ تیسرا تجربہ ہے جو اس وقت اپنی 80 کی دہائی میں ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ اس دہائی کی نحوست اس پر پہلے کی طرح نازل ہو گی۔

داخلی سلامتی کے سابق سربراہ: مسئلہ ایران کا نہیں ہے۔
صہیونی قومی سلامتی کے ادارے (شاباک) کے سابق سربراہ یوول ڈسکن نے حال ہی میں عبرانی اخبار یدیوت احرنوت میں شائع ہونے والے ایک کالم میں ایک نسل کے بعد صیہونی حکومت کے وجود کو لاحق خطرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے وجود کو خطرہ ہے جو بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے، اگر ہم نے حالات کو ابھی ٹھیک نہ کیا اور اب اس کی تلافی نہ کی تو ہمارا قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا اور برسوں بعد اور ایک نسل کے بعد ہماری حکومت ختم ہو سکتی ہے،ڈسکن نے اس سیاسی بحران کو بیان کیا جس کا صیہونی حکومت آج مشاہدہ کر رہی ہے اور ایک مستحکم اور مضبوط کابینہ کی تشکیل میں اس کی ناکامی کو ایک بیکار سیاسی شو قرار دیا جس نے اسٹریٹجک مسائل سے نمٹنے کی جگہ لے لی ہے، ایک ایسا ادارہ کہ کورونا وائرس کے پھیلنے نے اس کی نااہلی کو ظاہر کیا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کیا صیہونی حکومت کے پاس سماجی ہم آہنگی، اقتصادی استثنیٰ اور فوجی تحفظ کی طاقت ہے کہ وہ نسل در نسل اپنے وجود کے تسلسل کی ضمانت دے سکے؟ ڈسکن نے کہا کہمیں ایران کے جوہری خطرے، لبنان کی حزب اللہ کے میزائلوں یا سلفیوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہوں، بلکہ میں آبادی میں تبدیلی، سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کی بات کر رہا ہوں، جو حکومتوں کی نوعیت بدلتی ہیں اور ایک نسل کے بعد ان کے وجود کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

موساد کے سابق سربراہ: اسرائیل خود تباہ ہو رہا ہے!
صیہونی حکومت کی جلد از جلد تباہی کے حوالے سے دیگر متنازعہ موقفوں میں سے ایک موساد کے سابق سربراہ تامیر پاردو کا ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک تباہ کن صورتحال سے دوچار ہیں، اسرائیل کے خاتمے کے لیے ایران کی ضرورت نہیں، ہم خود کو تباہ کر رہے ہیں۔ ہم اپنے وجود کے سب سے بڑے خطرے تک پہنچ چکے ہیں جس کا سامنا آزادی کی جنگ کے بعد کیا گیا ہے، ہمیں اپنے آپ کو تباہ کرنے کے لیے ایرانیوں کی ضرورت نہیں ہے،ایران کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے حکام کو اس طرح بتاتی ہیں: اسرائیل کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں کسی بجٹ کی ضرورت نہیں، اسرائیل نے اپنے لیے خود تباہی کا طریقہ کار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اگر کوئی مجھ سے ایک، دو یا تین سال پہلے پوچھتا کہ اسرائیل کی موجودہ حالت یہ ہوگی تو میں اسے کہتا: تم وہم میں مبتلا ہو! کیونکہ اسرائیل کبھی بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکے گا، کیونکہ یہ ناممکن ہے لیکن اب ہمیں 1948 کے بعد سب سے بڑے وجودی خطرے کا سامنا ہے۔

نتیجہ
صیہونی ریاست کے اندرونی اختلافات، بنیاد پرست صیہونیوں اور سیکولرز کی دو قطبی تقسیم، معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ گزشتہ 2 سالوں میں مزاحمتی تحریکوں کی توسیع اور ان کی مرحلہ وار حکمت عملی تل ابیب کے لیے ایک ڈراونا خواب بن چکی ہیں، تاریخ کا جائزہ لیں تو اس ڈراؤنے خواب سے دوچار ہیں کہ 80 کی دہائی میں یہودی حکومتوں کے زوال کا تجربہ اس بار دہرایا جانے والا ہے، حال ہی میں صیہونی چینل کان نے ایک سروے شائع کیا اور بتایا کہ تقریباً 20 لاکھ صہیونی صیہونی حکومت کی افراتفری کی وجہ سے مقبوضہ فلسطین سے ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،اس سروے کے مطابق 6% یہودیوں نے ہجرت کے لیے عملی اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں، اس لیے مقبوضہ فلسطین میں تقریباً 20 لاکھ یہودی ہجرت کرنے کا سوچ رہے ہیں،ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی آمدنی جتنی بڑھے گی ان کے ہجرت کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے،اس بنا پر اس سروے میں حصہ لینے والے اور سابق صہیونی وزیر اعظم یائر لاپیڈ (نتن یاہو کے مخالف) کی جماعت سے وابستہ 53% افراد اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ امیگریشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ تمام حسابات اور اعدادوشمار کے مطابق اس جعلی ریاست کی تباہی یقینی ہے خواب نہیں۔

مشہور خبریں۔

مغربی میڈیا نے اعتراف کیا کہ بوچا کو یوکرینیوں نے قتل کیا: نیبنزیا

🗓️ 24 مئی 2022سچ خبریں:  اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے کہا

میرا استعفیٰ دباؤ نہیں نظام کے خلاف بغاوت ہے، جسٹس (ر) شاہد جمیل

🗓️ 22 فروری 2024لاہور: (سچ خبریں) لاہور ہائیکورٹ سے استعفیٰ دینے والے جسٹس ریٹائرڈ شاہد

صیہونیوں کی حمایت میں آنکھوں پر پٹی

🗓️ 21 مارچ 2024سچ خبریں: انگلستان کے وزیراعظم نے صیہونی حکومت کے جرائم کی کھل

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے پاکستان نہ آنے پر وزیر داخلہ کا اہم بیان سامنے آگیا

🗓️ 21 ستمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کےمطابق وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے

فلسطینیوں کے آتشین غبارے صیہونیوں کے لئے وبال جان

🗓️ 26 جولائی 2021سچ خبریں:صہیونی ذرائع نے غزہ کے آس پاس صہیونی بستیوں میں فلسطینیوں

پاکستان کا ہر فرد اگر درخت لگائے تو بہت بڑا انقلاب ہو گا

🗓️ 26 جولائی 2021اسلام آباد(سچ خبریں) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہر

سعودی ولی عہد کا علاقائی مسائل کی تلاش کے لیے وقتاً فوقتاً دورہ

🗓️ 24 مئی 2022سچ خبریں:  بعض باخبر ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ سعودی عرب

ریاض میں دمشق کا سفارت خانہ دوبارہ کھلا

🗓️ 1 اکتوبر 2023سچ خبریں:سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شام کا سفارت خانہ دوبارہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے