سچ خبریں:خرطوم کی جانب سے صیہونی حکومت کے ساتھ سمجھوتے اور تعلقات کو معمول پر لانے جس کی وجہ سے افریقہ اور سوڈان کے لوگوں میں جاری احتجاج جاری ہے ،کے ایک سال سے بھی کم عرصے کے بعد اس ملک میں جاری معاشی بدحالی نے سوڈان کو خالی کر دیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سوڈان میں خراب معاشی صورتحال حکومت کی سطح پر تقسیم کو بڑھانے کا باعث بنی ہے جسے سویلین وزیر اعظم انتہائی خطرناک اور بدترین سیاسی بحران قرار دیتے ہیں،یادرہے کہ جمعہ کے روز عبداللہ ہمدوک نے ایک منصوبے کی نقاب کشائی کی جسے انہوں نے دو سال کی عبوری مدت میں انتہائی خطرناک اور بدترین سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے ایک حل قرار دیا کہا۔
واضح رہے کہ اپریل 2019 میں محمد البشیر کی 30 سالہ حکومت کے خاتمے کے لیے وسیع پیمانے پر احتجاج اور سوڈانی فوج کی آمد کے بعدحمدوک نے اسی سال اگست میں سوڈانی وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا، سوڈان کے فوجی اور سویلین دھڑے تب سے اقتدار میں ہیں ،تاہم حالیہ مہینوں میں سوڈان کی عبوری حکومت کی حمایت میں کمی آئی ہے کیونکہ حمدوک کی زیرقیادت معاشی اصلاحات نے ایندھن کی سبسڈی کم کی ہے اور افراط زر میں بھی اضافہ کیا ہے۔
درایں اثنا خرطوم اور تل ابیب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے پر سوڈان میں ہونے مظاہروں نے گزشتہ چند مہینوں میں شدت اختیار کر لی ہے، ان کا ماننا ہے کہ سوڈان میں سیاسی بحران گہرا ہو گیا ہے اور عبوری حکومت ملک پر حکومت کرنے سے قاصر ہے۔
یاد رہے کہ سوڈان نے گزشتہ سال اکتوبر میں صہیونی حکومت کے ساتھ سمجھوتہ اور تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کیا جس کے ایک ماہ بعد ایک صہیونی وفد نے خرطوم کا سفر کیا،آخر کار رواں سال 6 جنوری کو سوڈان نے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کےایک معاہدے پر دستخط کیے اور تعلقات قائم کیے۔
قابل ذکر ہے کہ ہفتے کے روزسوڈانی فوج کے حامی مظاہرین نے بھوکی حکومت مردہ باد کے نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ جنرل عبدالفتاح برہان ، آرمی چیف اور سوڈان کی حکمران ملٹری سویلین کونسل ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے بغاوت کریں۔