سچ خبریں: ایک سینئر عرب تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ صیہونی حکومت غزہ کی جنگ میں اپنی مبینہ فتح کو چھوٹے چھوٹے واقعات میں پیش کرنا چاہتی ہے جو خود مزاحمت کے خلاف اس جنگ میں ان کی ناکامی کی نشاندہی ہے۔
معروف فلسطینی تجزیہ نگار اور انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے غزہ جنگ کے بارے میں اپنے نئے تجزیے میں قابض حکومت کی طرف سے اپنے لیے فتح کی تصویر پیش کرنے کی کوششوں پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع رفح میں قابض حکومت کے رہنماؤں کی طرف سے سیکڑوں طیاروں اور فوجی دستوں کی نقل و حرکت اور سو سے زائد فلسطینی شہریوں کو قتل کر کے بوڑھے اور بیمار 2 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے جو جعلی خوشی ظاہر کی گئی ہے اس کی ایک نئی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے فتح کی چھوٹی سی تصویر ڈھونڈ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ اور تل ابیب کے خلاف 3 وجودی خطرات
اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اس آپریشن کو اسرائیل کی تاریخ کی کامیاب ترین کارروائیوں میں شمار کرتے ہیں اور اس حکومت کے وزیرجنگ یواف گیلنٹ کا کہنا ہے کہ ان 2 قیدیوں کی بازیابی جنگ کے ایک اہم موڑ اور حماس کے کمزور ہونے کو ظاہر کرتی ہے نیز یہ تحریک کمزور ہو چکی ہے اور ہم جہاں چاہیں اس پر حملہ کر سکتے ہیں۔
لیکن واضح رہے کہ یہ عظیم فتح اور بنیادی موڑ اور حماس تحریک کی کمزوری جس کا صیہونی دعویٰ کرتے ہیں، غزہ کے عوام کی 130 دن کی بہادرانہ استقامت اور مزاحمت نیز اسرائیلی فوج کی صفوں کو پہنچنے والے بھاری جانی نقصان کے بعد صیہونیوں کو حاصل ہوا ہے۔
غزہ کی جنگ میں تقریباً 2500 صہیونیوں کی ہلاکت اور ان میں سے دسیوں ہزار کے زخمی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عطوان نے اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو اور ان کے سینئر جرنیل لمحہ بہ لمحہ اس آپریشن پر عمل پیرا ہیں، یہ ان کے لیے انتہائی شرمناک اور ذلت آمیز ہے۔ اگر اسرائیل اتنا ہی مضبوط تھا جتنا کہ قابض حکام کا دعویٰ ہے تو کیا اسے 2 معمر قیدیوں کی رہائی کے لیے ہنگامی اجلاس کرنے کی ضرورت تھی جو کینسر سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں؟ ممکن ہے کہ تحریک حماس بھی ان قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کوشاں ہو اور انسان دوستی کے تحت انھیں رفح کے جنوب میں ایک سادہ گھر میں رکھا اور صہیونیوں سے کہا کہ اپنے ان قیدیوں کو لے جاؤ۔
عطوان نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ حملہ آوروں نے F-15 اور F-16 جیسے جدید جنگی طیاروں کے ساتھ 50 سے زیادہ ڈرون حملے کیے ،نیتن یاہو اور ان کے جرنیلوں کو یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ان کے دیگر 132 قیدی مزاحمت کے پاس ہیں اور صہیونی فوج کی جانب سے ان قیدیوں کو رہا کرنے کی سابقہ کارروائیوں میں الجھن اور پریشانی ان میں سے 30 کی موت کا باعث بنی۔ اگر حماس اور دیگر فلسطینی گروہ، جن میں جہاد اسلامی بھی شامل ہے، کمزور ہوتے جیسا کہ نیتن یاہو فخر سے دعویٰ کرتے ہیں، تو کیا وہ 130 دن تک مزاحمت کر سکتے تھے اور کیا 3 اعلیٰ صہیونی حکام (بینی گینٹز اور نیتن یاہو گاڈی آئسن کوٹ) کے 3 الگ الگ منصوبوں کی ضرورت تھی کہ وہ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے قاہرہ بھیجیں؟
عطوان نے واضح کیا کہ نیتن یاہو اپنے استاد جو بائیڈن کی طرح جھوٹ بول رہے ہیں، بائیڈن نے جنگ بندی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا،نیتن یاہو کی رفح شہر پر حملے کی دھمکیاں ایک ہالی ووڈ فلم ہے، بلکہ پیرس معاہدے کے ذریعے جنگ بندی کے معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے تک پہنچنے کے لیے ایک بھارتی فلم ہے، یہ جنگ ایک دن، جلد یا بدیر ختم ہو جائے گی، لیکن طوفان الاقصیٰ آپریشن کی تاریخ ہمیشہ رہے گی جس نے صہیونی منصوبے کی تباہی کا آغاز کیا اور قابض فوج کو شکست دے کر صہیونی آبادکاروں اور پوری قوم کے سامنے رسوا کیا۔
مزید پڑھیں: غزہ جنگ سے صیہونیوں کو کیا ملا ہے؟فوجی تجزیہ کار کی زبانی
عطوان کے تجزیے کے آخر میں کہا گیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ عرب اسرائیل تنازع میں اہم موڑ ثابت ہو گا اور دوسری بڑی فتوحات لائے گا، ہم نیتن یاہو کو ایک بار پھر یاد دلاتے ہیں کہ عظیم فلسطینی مجاہد یحییٰ السنوار ابھی تک زندہ ہیں اور ایک محفوظ سرنگ سے اپنے جرنیلوں کے ساتھ غزہ میں جنگ کا انتظام کر رہے ہیں۔ قابض افواج نہ کبھی یحییٰ السنوار تک پہنچی ہیں اور نہ کبھی پہنچیں گی اور اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو وہ آخری گولی تک مزاحمت کریں گے، مزاحمت مضبوط اور مستحکم ہے اور نہ صرف فلسطینی قوم کے بچے بلکہ پوری عرب اور اسلامی قوم کے بچے نیز دنیا کے تمام آزاد لوگ اس مزاحمت کے گرد جمع ہیں ،یہ مزاحمت ہی قابض حکومت اور اس حکومت کی حمایت کرنے والوں کو مٹی میں دفن کرے گی۔