سچ خبریں:عرب دنیا کے تجزیہ نگار نے میدانی مشاہدات کا حوالہ دیتے ہوئے عرب لیگ کی جانب سے شام کو اس لیگ میں واپس لانے کے فیصلے پر شامی عوام کے ردعمل پر گفتگو کی ہے۔
معروف عرب تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے رائے الیوم اخبار کے اداریے میں اپنے میدانی مشاہدات کی بنیاد پر اس ملک کی عرب لیگ میں واپسی پر شامی عوام اور اس ملک کے حکام کے ردعمل کا تجزیہ کرتے ہوئے عرب لیگ کی جانب سے شام کو اس یونین میں واپس لانے کے فیصلے پر شامی عوام اور حکام کے ردعمل کو کم توجہی پر مبنی قرار دیا اس لیے کہ اس ملک کی عوام میں کوئی خاص خوشی دیکھنے کو نہ ملی اور ہی شامی وزارت خارجہ کی طرف سے اس مسئلے کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا گیا۔
اس معروف عرب تجزیہ کار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں شام کے دارالحکومت دمشق کے قلب میں لوگوں کے پاس گیا اور جب میں نے لوگوں سے شام کی عرب لیگ میں واپسی کے بارے میں پوچھا تو مجھے تین طرح کے جوابات ملے؛
1۔ لوگوں کے ایک گروہ نے اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا اس لیے کہ وہ عرب لیگ پر مکمل طور پر عدم اعتماد تھے نیز اس کی تنظیموں کو ناقابلِ بھروسہ سمجھتتے تھے۔
2۔ کچھ لوگوں نے ان عرب ممالک کے خلاف سخت غصہ کا اظہار کیا جنہوں نے شام کے خلاف سازش کرتے ہوئے اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، وہ ممالک شام کی سلامتی اور استحکام میں خلل ڈالنا چاہتے تھے۔
3۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے شام کی عرب لیگ میں واپسی کی مخالفت نہیں کی ،ان کا خیال تھا کہ شام کو اس واقعے کا عملی طور پر مقابلہ کرنا چاہیے اور ملک کی تعمیر نو اور معاشی بحران سے نکلنے کو ترجیح دینا چاہیے نیز معافی کے جذبے کے ساتھ آگے دیکھنا چاہیے۔
عبدالباری عطوان کے مطابق شامی سیاست دان، خاص طور پر اس ملک کے صدر بشار الاسد تیسرے طبقے سے متفق ہیں اور عرب ممالک کے خلاف بغض نہیں رکھتے،انہوں نے مزید کہا کہ بشار اسد عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح نہیں دیتے اور تمام عرب ممالک کے ساتھ برابر کے تعلقات رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں،انہوں نے اپنے تجزیہ میں عرب رہنماؤں کی ملاقات اور اس ملاقات میں بشار اسد کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ان کے دورہ سعودی عرب کے دو حصے ہیں؛ پہلے حصے میں بشار الاسد اور عرب لیگ کے دیگر رکن ممالک کے سربراہان کے درمیان دو طرفہ ملاقاتیں شامل ہیں اور دوسرا حصہ عرب لیگ کے اجلاس میں ان کی موجودگی سے متعلق ہے۔
انہوں نے شام کے صدارتی محل سے آنے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بشار اسد اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے مزید گہرا ہونے کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ دوستانہ تعلقات دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون ،شام کی تعمیر نو ، اتحاد کا احیاء نیز اس ملک اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔
عرب دنیا کے اس تجزیہ نگار نے اپنے تجزیے میں شام کی عرب لیگ میں واپسی پر امریکہ کے رد عمل اور عرب ممالک کے نقطہ نظر کے شام کی طرف جھکاؤ کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس واقعہ پر امریکہ کا خوف اور اس راستے میں روڑے اٹکانے کی اس ملک کی کوششیں دو طرح سے سامنے آتی ہیں؛شام کی عرب لیگ میں واپسی کے خلاف امریکی بیان اور امریکی ایوان نمائندگان کے بعض سینیٹرز کی جانب سے شام پر پابندیاں تیز کرنے نیز عرب لیگ میں شام کی واپسی کے عمل میں مدد کرنے والے ممالک اور تنظیموں کو سزا دینے کی تیاری۔
عبدالباری عطوان نے شام مخالف سازش کے لیے 500 بلین امریکی ڈالر کی لاگت کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی کہ شام کی حکومت نے زیادہ تر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرالیا ہے اور آئندہ جنگ تنف اور مشرقی فرات کے اڈوں سے امریکیوں کو نکال باہر کرنے کے لیے ہوگی جو تیل اور گیس کے کنوؤں کے ساتھ ساتھ شمال مغربی شام کے ان علاقوں کو آزاد کرانا جو ترکی کے قبضے میں ہیں، انہوں نے آخر میں لکھا کہ شام پر صیہونی حکومت کے پے درپے حملوں کا جواب نہ دیے جانے سے متعلق میرے سوال کے جواب میں شامی حکام نے کہا کہ شام مزاحمت کے محور کا حصہ ہے اور ان حملوں میں صیہونی حکومت کا ہدف ہمارے ملک کی فوج کے ہاتھوں اپنے ملک آزادی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کمزور کرنا ہے جبکہ ہم مزاحمت کے محور کو مضبوط ہوتے دیکھ رہے ہیں۔